ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2015 |
اكستان |
|
مساعی ٔ جمیلہ نالۂ نیم شبی اور توجہ نے شاگردوں اور مریدوں میں وہ رُوح پھونکی جس نے مسلمانوں میں اِنقلاب برپا کردیا۔ حکیم الامت حضرت مولانا اَشرف علی تھانوی نے شیخ محمد تھانوی شاگردِ رشید حضرت شاہ محمد اِسحاق محدثِ دہلوی سے نقل کیا ہے کہ( اُنہوں نے ) حضرت شاہ صاحب کی نسبت فرمایا ''اِن کو چھ ہزاراَحادیث کے متن یاد تھے۔'' (الا ضافات الیومیہ من الافادات القومیہ ١/ ٢٧٠، اِدارہ اَشرفیہ ملتان ) شیخ محسن بن یحییٰ ترہتی رقمطراز ہیں : قد بلغ من الکمال والشہرة بحیث تری الناس فی مدن اقطار الہند یفتخرون باعتزائھم الیہ، بل بانسلاکہم فی سمط من ینتمی الی اصحابہ۔ ١ نواب صدیق حسن خان صاحب قنوجی لکھتے ہیں : ''حضرت شاہ صاحب اپنے وقت میں علماء اور مشائخ کے مرجع تھے ،تمام علومِ متداولہ و غیر متدا ولہ میں اُن کوجو دستگاہ حاصل تھی وہ بیان سے باہر ہے، باطنی کمال کے ساتھ صوری جاہ و عزت اور ظاہری تعظیم واِحترام بھی حاصل تھا، اَمیر المجاہدین سیّد اَحمد شہید کو اِن ہی سے بیعت ِ طریقت حاصل تھی ،بلادِ ہند میں علم و عمل کی سیادت اِن پر اور اِن کے بھائیوں پر ختم تھی، اِن کی کتابیں فضلاء کی معتمد علیہ ہیں اِن کا خاندان علومِ حدیث اور فقہ حنفی کاخاندان ہے، اِس علم شریف کی خدمت جیسی اِس خاندان سے اِقلیم ہندمیں بن آئی کسی دُوسرے خاندان کی بابت مشہور و معلوم نہیں، در حقیقت اِس سر زمین میں عمل بالحدیث کی تخم ریزی اِن کے والد ماجد نے کی اور اُنہوں نے اِس کو برگ وبار بخشے اور پروان چڑھایا۔ ( مُلخص و ترجمہ اتحاف النبلاء المتقین باحیاء مآثرالفقہاء المحدثین ص٢٩٦ مطبع نظامی کانپور) ١ الیانع الجنی ص ٨٧