ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2015 |
اكستان |
|
اِس طرح کے اِعتقادات اِس دور میں دیہاتوں وغیرہ میں بہت پائے جاتے ہیں، نبی اکرم ۖ نے اِن سب خرافات کااِنکار کردیا۔ (اشِعةُ اللمعات) (٥) اور آپ ۖ نے یہ بھی فرمایا : وَلَا نَوْئَ ایک ستارے کا غروب ہونا اور دُوسرے کا طلوع ہونا یا چاند کی مختلف منزلیں مراد ہیں، اہلِ عرب کا یہ عقیدہ تھا کہ وہ بارش کو چاند کے مختلف برج یا منازل کے ساتھ منسوب کرتے تھے ،چاند کے فلاں برج یا منزل میں ہونے سے بارش ہوتی ہے یا فلاں ستارے کے طلوع ہونے یا غروب ہونے سے بارش ہوتی ہے یعنی وہ بارش کی نسبت بجائے اللہ کے اِن ستاروں کی جانب کردیتے تھے ، آپ ۖ نے اِس کا اِنکار فرما دیا۔ (اَبو داؤد : ٣٩١٢) اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ۖ نے حدیبیہ کے موقع پر ایک دفعہ فجر کی نماز پڑھائی فجر سے پہلے بارش ہوچکی تھی، جب آپ ۖ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا : ''کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا : تو اُن لوگوں نے کہا اللہ اور اُس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ فرمایا کہ ''اللہ عز و جل نے فرمایا : میرے بندوں میں سے کچھ نے تو حالت اِیمان میں صبح کی اور کچھ نے کفرو شرک کی حالت میں صبح کی، جنہوں نے یہ کہا کہ اللہ کے فضل و رحمت سے بارش ہوئی تو وہ مجھ پر اِیمان لائے اور اُنہوں نے ستاروں کا اِنکار کیا اور جنہوں نے یہ کہا کہ فلاں ستارے کے فلاں برج میں ہونے سے بارش ہوئی تو اُس نے میرا اِنکار کیا اور ستاروں کے ساتھ اپنا اِیمان وابستہ کیا وَاَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِنَوْئِ کَذَا وَ کَذَا فَذٰلِکَ کَافِر بِیْ مُوْمِن بِالْکَوْکَبِ ۔'' (مسلم شریف رقم الحدیث : ١٢٥) ستاروں اور سیاروں کی گردش اور اُن کا طلوع و غروب ہونا بارش ہونے یا نہ ہونے کا ایک ظاہری سبب تو ہوسکتے ہیں لیکن مؤثر حقیقی ہر گز نہیں ہوسکتے، مؤثر حقیقی اور قادرِ مطلق محض اللہ جل شانہ کی ذات ہے۔ (معارف القرآن)