Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2015

اكستان

44 - 65
پرندوں کو اپنی جگہ بیٹھے رہنے دو(مرقاة المفاتیح)۔ اِن کو خواہ مخواہ اُڑا کر فال نہ لو، اِس حدیث میں نبی کریم  ۖ  نے مختلف اِعتقاداتِ بد اور زمانہ ٔ جاہلیت کے مختلف توہمات اور بدشگونیوں کا رَد فرمایا دیا ہے۔ 
(٢)  اور فرمایا  :   لَاعَدْوٰی   تعدیہ کوئی چیز نہیں ہوتی ،یعنی زمانہ ٔ جاہلیت کا ایک تصوریہ بھی تھا کہ بیماریاں ایک دُوسرے کو متعدی ہوتی ہیں، ایک دُوسرے کو منتقل ہوتی ہیں، حضور اکرم  ۖ  نے اِس اِعتقادِ بد کی نفی کرتے ہوئے فرمایا کہ تعدیہ کوئی چیز نہیں ہے۔ اِس تعدیہ کے متعلق ایک دیہاتی نے جب آپ  ۖ  سے یہ دریافت کیا کہ یا رسول اللہ  ۖ  اُونٹ ریتیلے علاقوں میں بالکل ہرنوں کے مانند تیز و طرار ہوتے ہیں کہ کوئی عارضہ یا کوئی بیماری اُنہیں نہیں ہوتی اُن میں ایک خارش زدہ اُونٹ آکر گھل مِل جاتا ہے وہ سب کو خارش زدہ کر دیتا ہے،یہ تو تعدیہ ہوا،اِس پر آپ  ۖ نے فرمایا  فَمَنْ اَعْدَی الْاَوَّلَ  پہلے اُونٹ کو خارش کہاں سے ہوئی  ؟  یعنی جب پہلے اُونٹ کی خارش من جانب اللہ ہے تو اِن تمام کا خارش زدہ ہونا بھی اُسی کی جانب سے ہے۔ (بخاری شریف  :  ٥٧١٧) 
(٣)  اور فرمایا  وَلَا ھَامَةَ  ہامہ بھی کوئی چیز نہیں ہے، ''ہامہ '' کہتے ہیں ''اُلو'' کو، اہلِ عرب  کا ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ مردار کی ہڈیاں جب بالکل بوسیدہ اور ریزہ ریزہ ہوجاتی ہیں تو وہ ''اُلو'' کی  شکل اِختیار کر کے باہر نکل آتی ہیں اور جب تک قاتل سے بدلہ نہیں لیا جاتا اُس کے گھر پر اُس کی آمدورفت بر قرار رہتی ہے، زمانہ ٔ جاہلیت کی طرح موجودہ دور میں بھی ''اُلو'' کو منحوس پرندہ تصور کیا جاتا ہے، اِس کے گھر پر بیٹھنے کو مصائب کی آمد کا اعلان تصور کیا جاتا ہے، حضور اکرم  ۖ  نے اِن تمام اِعتقادات اور توہمات کا اِنکار کردیا۔ (مرقاة المفاتیح)اِس طرح کے بعض ملتے جلتے اِعتقادات آج بھی پائے جاتے ہیں کہ شب ِمعراج، شب ِبراء ت اور شب ِقدر اور عید و غیرہ میں رُوحیں اپنے گھر آتی ہیں، یہ سب توہمات ہیں۔ 
(٤)  اور آپ  ۖ  نے یہ بھی فرمایا   وَلَا غَوْلَ  بھوت پریت کا کوئی وجود نہیں، یعنی  اہلِ عرب کا یہ تصور بھی تھا کہ جنگلوں اور بیابانوں میں اِنسان کو بھوت پریت نظر آتے ہیں جو مختلف شکلیں دھارتے رہتے ہیں اور لوگوں کو گم کردہ راہ کردیتے ہیں اور اُن کو بسا اَوقات جان سے بھی ماردیتے ہیں،
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حرفِ آغاز 4 1
3 درسِ حدیث 6 1
4 گورنروں کے لیے ضابطہ : 7 3
5 مال کمائو مگر اللہ کو یاد رکھو : 8 3
6 اعلیٰ اَخلاق کا معلم 9 1
7 سرمایہ پرستی کا دُشمن ۔ اِنسانیت کا حامی ۔ شرافت کا علمبردار 9 6
8 دُنیا دو طبقوں میں بٹ گئی ہے : صاحب ِ سرمایہ اور محنت کش مزدُور 9 6
9 اِس کائنات کا مقصد کیا ہے ؟ 12 6
10 میدانِ اِنقلاب ....... تبدیلی کہاں کی جائے ؟ 14 6
11 آخری منزل .......... ''ملکیت'' کا خاتمہ 18 6
12 تقسیم کی صورت : 20 6
13 ایک مثال : 21 12
14 ایک عجیب و غریب دلیل یا فیصلہ ملاحظہ فرمائیے : 21 6
15 اِسلام کیا ہے ؟ 23 1
16 سترہواں سبق : ذکر اللہ 23 15
17 اَفضل الذکر : 23 15
18 کلمۂ تمجید : 24 15
19 تسبیحاتِ فاطمہ : 25 15
20 سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہ : 26 15
21 قرآنِ پاک کی تلاوت : 27 15
22 ذکر کے متعلق چند آخری باتیں : 28 15
23 وفیات 29 1
24 قصص القرآن للاطفال 30 1
25 پیارے بچوں کے لیے قرآن کے پیارے قصے 30 24
26 ( حضرت لقمان حکیم کا قصہ ) 30 24
27 بقیہ : اعلیٰ اَخلاق کا معلم 33 6
28 ماہِ صفرکے اَحکام اور جاہلانہ خیالات 34 1
29 ماہِ صفر کا ''صفر'' نام رکھنے کی وجہ : 34 28
30 ماہِ صفر کے ساتھ ''مظفَّر''لگانے کی وجہ : 34 28
31 ماہِ صفر کے متعلق نحوست کا عقیدہ اور اُس کی تردید : 35 28
32 ماہِ صفر سے متعلق بعض روایات کا تحقیقی جائزہ : 37 28
33 ماہِ صفر کی آخری بدھ کی شرعی حیثیت اوراُس سے متعلق بدعات : 38 28
34 بد شگونی اور اِسلامی نقطۂ نظر 42 1
35 زمانہ ٔ جاہلیت کی بد شگونیاں : 43 1
36 عصر حاضر کی بدشگونیاں اور توہمات : 46 1
37 ماہِ صفر کی نحوست کا تصور : 48 1
38 دین کے مختلف شعبے 49 1
39 (ا ) اصل ِدین کا تحفظ : 49 38
40 (٢ ) راستہ کی رُکاوٹوں کو دُور کرنا : 50 38
41 (٣) باطل عقائد و نظریات کی تردید : 50 38
42 (٤ ) دعوت اِلی الخیر : 53 38
43 دین کے تمام شعبوں کا مرکز : 54 38
44 موجودہ دور کا اَلمیہ : 55 38
45 تعارف و تبصرہ '' فوائد جامعہ بر عجالہ نافعہ '' 57 1
46 نام و نسب : 58 45
47 وِلادت با سعادت : 58 45
48 تحصیل ِعلم : 58 45
49 درس و تدریس اور فضل و کمال : 58 45
50 وفات : 61 45
51 تعارف و تبصرہ بر کتاب عجالہ نافعہ : 61 45
52 فصل اَوّل : 61 45
53 شرائط : 62 52
54 طبقہ اُولیٰ : 63 52
55 طبقہ ثانیہ : 63 52
56 طبقہ ثالثہ : 63 52
57 طبقہ رابعہ : 63 52
58 فصل دوم : 64 45
59 خاتمہ : 64 58
60 بقیہ : بد شگونی اور اِسلامی نقطۂ نظر 64 34
Flag Counter