ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2015 |
اكستان |
|
پرندوں کو اپنی جگہ بیٹھے رہنے دو(مرقاة المفاتیح)۔ اِن کو خواہ مخواہ اُڑا کر فال نہ لو، اِس حدیث میں نبی کریم ۖ نے مختلف اِعتقاداتِ بد اور زمانہ ٔ جاہلیت کے مختلف توہمات اور بدشگونیوں کا رَد فرمایا دیا ہے۔ (٢) اور فرمایا : لَاعَدْوٰی تعدیہ کوئی چیز نہیں ہوتی ،یعنی زمانہ ٔ جاہلیت کا ایک تصوریہ بھی تھا کہ بیماریاں ایک دُوسرے کو متعدی ہوتی ہیں، ایک دُوسرے کو منتقل ہوتی ہیں، حضور اکرم ۖ نے اِس اِعتقادِ بد کی نفی کرتے ہوئے فرمایا کہ تعدیہ کوئی چیز نہیں ہے۔ اِس تعدیہ کے متعلق ایک دیہاتی نے جب آپ ۖ سے یہ دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ۖ اُونٹ ریتیلے علاقوں میں بالکل ہرنوں کے مانند تیز و طرار ہوتے ہیں کہ کوئی عارضہ یا کوئی بیماری اُنہیں نہیں ہوتی اُن میں ایک خارش زدہ اُونٹ آکر گھل مِل جاتا ہے وہ سب کو خارش زدہ کر دیتا ہے،یہ تو تعدیہ ہوا،اِس پر آپ ۖ نے فرمایا فَمَنْ اَعْدَی الْاَوَّلَ پہلے اُونٹ کو خارش کہاں سے ہوئی ؟ یعنی جب پہلے اُونٹ کی خارش من جانب اللہ ہے تو اِن تمام کا خارش زدہ ہونا بھی اُسی کی جانب سے ہے۔ (بخاری شریف : ٥٧١٧) (٣) اور فرمایا وَلَا ھَامَةَ ہامہ بھی کوئی چیز نہیں ہے، ''ہامہ '' کہتے ہیں ''اُلو'' کو، اہلِ عرب کا ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ مردار کی ہڈیاں جب بالکل بوسیدہ اور ریزہ ریزہ ہوجاتی ہیں تو وہ ''اُلو'' کی شکل اِختیار کر کے باہر نکل آتی ہیں اور جب تک قاتل سے بدلہ نہیں لیا جاتا اُس کے گھر پر اُس کی آمدورفت بر قرار رہتی ہے، زمانہ ٔ جاہلیت کی طرح موجودہ دور میں بھی ''اُلو'' کو منحوس پرندہ تصور کیا جاتا ہے، اِس کے گھر پر بیٹھنے کو مصائب کی آمد کا اعلان تصور کیا جاتا ہے، حضور اکرم ۖ نے اِن تمام اِعتقادات اور توہمات کا اِنکار کردیا۔ (مرقاة المفاتیح)اِس طرح کے بعض ملتے جلتے اِعتقادات آج بھی پائے جاتے ہیں کہ شب ِمعراج، شب ِبراء ت اور شب ِقدر اور عید و غیرہ میں رُوحیں اپنے گھر آتی ہیں، یہ سب توہمات ہیں۔ (٤) اور آپ ۖ نے یہ بھی فرمایا وَلَا غَوْلَ بھوت پریت کا کوئی وجود نہیں، یعنی اہلِ عرب کا یہ تصور بھی تھا کہ جنگلوں اور بیابانوں میں اِنسان کو بھوت پریت نظر آتے ہیں جو مختلف شکلیں دھارتے رہتے ہیں اور لوگوں کو گم کردہ راہ کردیتے ہیں اور اُن کو بسا اَوقات جان سے بھی ماردیتے ہیں،