ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2013 |
اكستان |
|
چاہے وہ سیاسی جماعتیں ہوں یا پریشر گروپ یا اِنٹرسٹ گروپ یا دُوسری سماجی جماعتیں اَور تنظیمیں ہوں، اُن میں سے کسی ایک میں عملی حصہ لینے والوں کی تعداد پورے ملک میں٣٢ فیصد ہے، کسی بھی اِجتماعی کام میں حصہ لینے والے مثلاً خدمت ِ خلق میں حصہ والوں کی تعداد ٣٠ فیصد ہے اَور انتخابات میں ترغیب دینے والے ٢٦ فیصد ہیں نیز جنہوں نے کبھی کسی معاشرتی مسئلے کے لیے کسی سر کاری اِدارے سے رُجوع کیا ہو مثلاً ہمارے یہاں سڑک خراب پڑی ہوئی ہے اِس کو درست کرادویا ہمارا گٹر خراب پڑا ہوا ہے اُس کو درست کرادو، اِس قسم کے کسی معاشرتی مسئلے کے لیے کسی سرکاری اِدارے سے رُجوع کرنے والے تقریبًا ٢٠فیصد ہیں، کسی سیاسی جلسے میں تین سال کے دَوران کم اَز کم ایک مرتبہ شرکت کرنے والوں کی تعداد ١٩ فیصد ہے، کسی اِنتخاب میں پیسہ خرچ کرنے والے ١٣ فیصد ہیں، کسی سیاسی جماعت کی باقاعدہ رُکنیت رکھنے والے لوگوں کی تعداد پورے ملک میں کل ٨ فیصد ہے۔ ''(صفحہ ١٠٢) اَب آپ دیکھئے کہ اُس معاشرے میں جہاں تعلیم کا اَوسط ١٠٠ فیصد کے قریب ہے، وہاں سیاسی دلچسپی کا یہ حال ہے۔ لہٰذا حقیقی معنی میں عوام یا اُن کی اَکثریت کے حکومت میں شریک ہونے کا دعویٰ ایک تخیلاتی دعویٰ ہے جس کا عمل میں کوئی وجود نہیں ہے۔ ( ماخوذ اَز : اِسلام اَور سیاسی نظریات صفحہ ١٤٤ تا ١٥٤ مؤلفہ حضرت مولانا مفتی محمد تقی صاحب عثمانی مدظلہم )