ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2013 |
اكستان |
|
مثلًا ہمارے ملک میں پارلیمانی نظام رائج ہے اَور پارلیمانی نظام کا اَصل تصور یہ ہے کہ پہلے منشور کی بنیاد پر پارٹیاں بنیں ،اُن پارٹیوں کے منشور کی بنیاد پر لوگ اُن کو ووٹ دیں اَور ووٹ دینے کے نتیجے میں جو پارٹی اَکثریت میں آجائے وہ حکومت بنائے۔ اَب ہمارے ہاں خواندگی کی شرح تو بمشکل ٢٢ فیصد ہے اَور آبادی کے اِضافہ کی وجہ سے بڑھنے کے بجائے گھٹ رہی ہے۔ زیادہ تر آبادی دیہاتی اَور اَن پڑھ ہے، اَب اُن سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ پہلے وہ سیاسی جماعتوں کے منشوروں کا تقابلی مطالعہ کریں کہ پیپلز پارٹی کا منشور کیا ہے اَور مسلم لیگ کا منشور کیا ہے ؟ اَور اُن منشوروں کا تقابلی مطالعہ کرنے کے بعد یہ فیصلہ کریں کہ ہمارے ملک کے حالات میں کون سا منشور زیادہ بہتر ہے اَور اِس فیصلے کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کو یا مسلم لیگ کو ووٹ دیں۔ ظاہر ہے کہ ناخواندہ عوام سے یہ مطالبہ کرنا حماقت ہی کہلا سکتا ہے لہٰذا عملًا اِس کے علاوہ اَور کچھ نہیں ہوسکتا کہ لیڈر ایک نعرہ دے گا جس میں ہزار فریب ہوں گے اَور اُس نعرے کی بنیاد پر عوام کے جذبات کو بھڑکا کر اُن کا ووٹ اَپنے حق میں اِستعمال کرے گا۔ پھر اِسی معاملے کا ایک دُوسرا پہلو یہ ہے کہ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو صحیح معنی میں سیاسی ذوق رکھتے ہوں اَور اُس سیاسی ذوق کے مطابق دیکھ بھال کر سوچ سمجھ کر فیصلے کرتے ہوں چنانچہ جہاں جہاں اِنتخابات ہوتے ہیں اُن میں اگر اَوسط نکالا جائے تو ٤٥ فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں ڈالتے۔ اِس وقت میرے سامنے ایک کتاب ہے جس کا نام ہے ''اِنٹروڈکشن ٹو پو لیٹیکل سائنس'' جو چار اَمریکی مصنفین کی لکھی ہوئی ہے اَور نیو جرسی سے شائع ہوئی ہے اِس میں یہ بتایاگیا ہے کہ '' لوگوں کا سیاست اَور دُوسرے اِجتماعی کاموں دلچسپی اَور حصہ لینے کا کیا اَوسط ہے اَور کن کن کاموں میں عوام نے کتنے فیصد حصہ لیا ہے ؟ چنانچہ اِن اَعدادو شمار کے مطابق لوگوں نے سب سے زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ صدارتی اِلیکشن میں کیا ہے۔ اِس میں آبادی کے ٧٢ فیصد لوگوں نے ووٹ ڈالے ہیں۔ لوکل باڈیز کے اِنتخابات میں جن لوگوں نے حصہ لیا وہ ٤٧ فیصد ہیں۔ کسی بھی اِجتماعی تنظیم میں