ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2013 |
اكستان |
|
اِس کمیٹی کی رپورٹ بڑی عبرتناک ہے اِس رپورٹ میں کمیٹی نے جو باتیں کہی ہیں اُن کا خلاصہ یہ ہے کہ ''ہم جنس پرستی ایک برائی ہے لیکن ہماری دُشواری یہ ہے کہ ہم نے اَپنے پروگرام کو اَچھائی یا برائی پر تعمیر نہیں کیا ہے بلکہ اِس بنیاد پر تعمیر کیا ہے کہ اَفراد اَپنے لیے قانون طے کرنے کے لیے آزاد ہیں۔اَور جب ہم نے یہ اُصول تسلیم کر لیا تو قانون کا دائرہ کار اَخلاق کے دائرہ کار سے بالکل اَلگ ہو گیا ہے۔ قانون اَور چیز ہے اَور اَخلاق اَور چیز ہے ۔اَخلاق اِنسان کا ذاتی معاملہ ہے اَور قانون رائے عامہ کا مظہر ہے آزادی کا مظہر ہے لہٰذا جب تک معاشرے میں کوئی ایسی کوشش نہیں کی جاتی جو بداَخلاقی یا گناہ کو جرم کے مساوی قرار دیدے تو اَخلاق اَور قانون کا دائرہ کار اَلگ رہے گا۔ اَور یہ قانون کا کام نہیں ہے کہ وہ خیر اَور شر کا فیصلہ کرے کہ کون سی چیز اَچھی ہے اَور کون سی چیز بری ہے لہٰذا ہم اِس قانون کی حمایت میں رائے دینے پر مجبور ہیں ،جب رائے عامہ اِس کے جواز کی طرف جارہی ہے تو ہم اِس پر یہ رائے دیں گے کہ یہ قانون بنادیا جائے۔ '' چنانچہ اِس کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر برطانیہ کے دارُالعوام نے یہ فیصلہ کردیا کہ ہم جنس پرستی قانونًا جائز ہے اَور جب برطانیہ نے یہ قانون بنایا تو اَمریکہ نے بھی بنایا ۔اَور اَب یورپ اَور اَمریکہ میں اِن کی باقاعدہ جماعتیں قائم ہیں جن کو'' ہم جنس پرست'' کہتے ہیں بر سرِ عام یہ لوگ اَپنے آپ کو Gay کہتے ہیں اِس کے لفظی معنٰی ہیں ''مگن'' یعنی خوشی میں مگن۔ اِن کی جماعتیں ہیں اَور اِن کی تنظیمیں ہیں جن کے ذریعے وہ اِس نقطہ نظر کا پرچار کرتے ہیں، نہ صرف پرچار کرتے ہیں مرد Gay کہلاتے ہیں اَور عورتیں Lesbian کہلاتی ہیں۔