ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2013 |
اكستان |
|
اِس نظریہ کی معقولیت جانچنے کے لیے سب سے پہلے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اَگر ساری عوام حاکم ہیں تو محکوم کون ہے ؟ کیا محکوم زمین ہے یا مُلک کی عمارتیںہیں یا جمادات یا نباتات ہیں ؟ اگر یہ چیزیں محکوم نہیں بن سکتیں تو آخر محکوم کون ہے ؟ یہ عوام جو حاکم ہیںیہ کس پر حکومت کریں گے ؟ حاکم ہونے کا لازمی نتیجہ ہے کسی کا محکوم ہونا اَور جب عوام کو حاکم قرار دے دیا تو محکوم کا کوئی وجود ہی نہیں رہا، سب کے سب حاکم ہیں اَور جب سب حاکم ہوں تو یہ اَنارکی ہے۔ جمہوریت کی تعریف میں یہ جملہ مشہور ہے کہ Government of the people by the people for the people '' یہ حکومت ہے عوام کی ، عوام کے ذریعے سے اَور عوام کے لیے '' اِس کا مطلب یہ ہوا کہ عوام خود ہی حاکم ہیں اَور خود ہی محکوم بھی ہیں۔ یہ بات کسی منطق کی رُو سے درست نہیں ہوتی کہ ایک ہی شخص کو حاکم بھی قرار دیا جائے اَور اُسی کو محکوم بھی قرار دیا جائے اَور اُسی کو ذریعہ حکومت بھی قرار دیا جائے لہٰذا عوام کی حاکمیت کا جو بنیادی تصور ہے وہ مفقود ہو گیا۔ اِس اِعتراض کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ عوام کی حاکمیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود اَپنی مرضی سے اَپنے نمائندے مقرر کر لیتے ہیں پھر وہ نمائندے حاکم بن جاتے ہیں اَور باقی عوام محکوم ہو جاتے ہیں لیکن اَوّل تو اِس نمائندگی کی حقیقت (بالکل بے تکی ہے جس کو) ہم اِنشاء اللہ عنقریب واضح کریں گے) دُوسرے اِس کا مطلب یہ ہوا کہ عوام کی اَکثریت اپنے نمائندے مقرر کرنے کے بعد بے دَست و پا ہوگئی پھر سارا اِختیار اُن گِنے چنے نمائندوں کے پاس چلا گیا اَور عوام کی بھاری اَکثریت اُن کی دَست ِنگربن گئی تو یہ اُن گِنے چنے اَفراد کی حاکمیت ہوئی،جمہوریت اَور عوام کی اَکثریت کی حاکمیت تونہ ہوئی۔ حاکمیت کے معنی خود علمِ سیاست کے ماہرین یہ بیان کرتے ہیں کہ کسی شخص کا کسی دُوسرے کا پابند ہوئے بغیر خود اَپنی مرضی سے حاکمانہ اِختیارات اِستعمال کرنا یا دُوسرے پر اَحکام جاری کر نا۔ خود علم ِ سیاست کی رُو سے یہ حاکمیت کے معنی قرار دیے جاتے ہیںلہٰذا جب یہ کہا جائے کہ عوام حاکم ہیں تو