ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2013 |
اكستان |
|
کرتے ہیں مگر اُن کی یہ محبت صرف دُنیاوی آرام و راحت تک محدود رہتی ہے اُن کی اَصل ضرورت یعنی آخرت کی نجات اَور موت کے بعد کے آرام و راحت کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ حلال مال سے حلال طریقے پر کھلانا پلانا اَور پہنانا اچھی بات ہے لیکن اِنسان کی سب سے بڑی ضرورت آخرت کا آرام وسکون ہے۔ بچوں کی خوشی کے لیے اُن کو غیر ضروری لباس بھی پہناتے ہیں، اُن کے لیے تصویریں مورتیاں خرید کر لاتے ہیں اَور اپنے گھروں کو اُن کی وجہ سے رحمت کے فرشتوں سے محروم رکھتے ہیں، اُدھار قرض کر کے اُن کی جائز ناجائز ضرورتوں اَور شوقیہ زیب و زینت اَور فیشن پر اچھی خاصی رقمیں خرچ کرتے ہیں لیکن اُن کو دین پر ڈالنے کی فکر نہیں کرتے ،یہ بچوں کے ساتھ بہت بڑی دُشمنی ہے اگر دین نہیں تو آخرت کی تباہی ہو گی، وہاں کی تباہی کے سامنے دُنیا کی ذرا سی چٹک مٹک اَور چہل پہل کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی۔ اپنی اَولاد کے سب سے بڑے محسن وہ ماں باپ ہیں جو اپنی اَولاد کو دینی علم پڑھاتے ہیں اَور دینی اعمال پر ڈالتے ہیں۔ یہ علم نہ صرف اَولاد کے لیے بلکہ خود اُن کے والدین کے لیے بھی قبر میں اَور آخرت میں نفع مند ہو گا۔ ایک بزرگ کا اِرشاد ہے : اِنَّ النَّاسَ نِیَام فاِذَا مَاتُوْا اِنْتَبَھُوا یعنی لوگ سو رہے ہیں جب موت آئے گی تو بیدار ہوں گے۔ آخرت سے بے فکری کی زندگی گزارنے میں اِنسان کا نفس خوش رہتا ہے اَور یہی حال بال بچوں اَور دُوسرے متعلقین کا ہے، اگر آخرت کی باتیں نہ بتائو اَور کھلائے پلائے جائو دُنیا کا نفع پہنچائے جائو تو ہشاش بشاش رہتے ہیں اَور اِس تغافل کو باعث ِنقصان نہیں سمجھتے لیکن جب آنکھیں بند ہوں گی اَور قبر کی گود میں جائیں گے اَور موت کے بعد کے حالات دیکھیں گے تو حیرانی سے آنکھیں پھٹی رہ جائیں گی۔ عالم ِآخرت کی ضرورتیں اَور حاجتیں جب سامنے ہوں گی تو غفلت پر رنج ہو گا اَور حسرت ہو گی کہ کاش آج کے دِن کے لیے خود بھی عمل کرتے اَور اَولاد کو بھی یہاں کی کامیابی کی راہ پر ڈالتے مگر اُس وقت حسرت بے فائدہ ہو گی۔ لوگوں کا یہ حال ہے کہ بچوں کو ہوش سنبھالتے ہی سکول اَور کالج کی نذر کر دیتے ہیں یا محنت