ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2013 |
اكستان |
|
اَدائیگی ہوتی ہے اَور مخلوق کے ساتھ جو اِنسان کے تعلقات ہوتے ہیں اُن میں اِن اَحکام کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے جو مخلوق کی راحت رسانی سے متعلق ہیں اُن میں بھی واجبات اَور مستحبات ہیں اَور اُن کی تفصیل و تشریح بھی شریعت ِمحمدیہ میں وا رِد ہوئی ہے، یہ وہ آداب ہیں جن کا برتنا مخلوق کے لیے باعثِ راحت و رحمت ہے۔ خلاصہ یہ کہ لفظ اَدب کی جامعیت حقوق اللہ اَور حقوق العباد دونوں کو شامل ہے یہ جو حضور اَقدس ۖ نے فرمایا کہ اَچھے اَدب سے بڑھ کر کسی باپ نے اپنے بچہ کو کوئی بخشش نہیں دی، اِس میں پورے دین کی تعلیم آ جاتی ہے کیونکہ دین اِسلام اَچھے اَدب کی مکمل تشریح ہے۔ بہت سے لوگ لفظ اَدب کے معروف معنٰی لے کر اُس کا رواجی مطلب لے لیتے ہیں اَور اُنہوں نے اُٹھنے بیٹھنے کے طریقوں تک ہی کواَدب کا اِنحصار سمجھ رکھا ہے۔ حدیث میں یہ جو فرمایا کہ اِنسان اپنے بچہ کو اَدب سکھائے تو یہ اِس سے بہتر ہے کہ ایک صاع غلہ وغیرہ صدقہ کرے، اِس میں ایک اہم بات کی طرف توجہ دِلائی گئی ہے وہ یہ کہ صدقہ خیرات اگرچہ فی نفسہ بہت بڑی عبادت ہے (اگر اللہ کی رضا کے لیے ہو) لیکن اِس کا مرتبہ اپنی اَولاد کی اِصلاح پر توجہ دینے سے زیادہ نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں کو اللہ جل شانہ نے مال دیا ہے، اُس میں سے صدقہ و خیرات کرتے ہیں اَور اَولاد کی طرف سے پوری غفلت برتتے ہیں، مسکین آ رہے ہیں گھر پر کھا رہے ہیں غریبوں کی روٹی بندھی ہوئی ہے مدرسہ اَور مسجدوں میں چندہ جا رہا ہے لیکن اَولاد بے اَدب ، بد اَخلاق، بے دین بلکہ بد دین بنتی چلی جا رہی ہے، صدقہ و خیرات کرنے پر خوش ہیں اَور خوش ہونا بھی چاہیے لیکن اِس سے بڑھ کر عمل جو ہے جس کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے وہ اپنی اَولاد کو اَدب سکھانا ہے یعنی اللہ کے راستہ پر ڈالنا ہے، اِس کے لیے فکر مند ہونا لازمی اَمر ہے، اِس غفلت سے نسلوں کی نسلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ ماں باپ کا فریضہ ہے کہ بچوں کودین سکھائیں اَور دین کو سب سے زیادہ اہمیت دیں کیونکہ دین ہی آخرت کی ہمیشہ والی زندگی میں کام دینے والا ہے۔ بہت سے لوگ بچوں سے بہت زیادہ محبت