ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2013 |
اكستان |
|
نے تو میری عمر بھر کی حیا اَور غیرت کو ایک منٹ میں اَپنی تقریر سے مغلوب کردیا۔ اُس وقت مجھے ڈاکٹر کے سامنے آنے سے بھی غیرت نہ روکتی تھی، اِن کا کیا اِعتبار یہ ظالم تو اَپنی تقریر سے کسی کا دین بھی بدل دیں تو تعجب نہیں۔ صاحبو ! اِس بات کو معمولی نہ سمجھو اِس کی بہت اِحتیاط ضروری ہے خصوصًا یہ جو مشن کی میمیں (عیسائی ڈاکٹر عورتیں) اِن سے تو بہت ہی لازمی ہے۔ یہ اَپنے مذہب کی تبلیغ بڑی باریکی سے کر دیتی ہیں کہ سننے والے کو پتہ بھی نہیں چلتا مگر اِس کا اَثر یہ ہوتا ہے کہ مخاطب کے ذہن میں اُن کے مذہب سے نفرت نہیں رہتی اَور بعض علاج کے ساتھ ساتھ وہ مذہبی گفتگو بھی صاف صاف کرتی رہتی ہیں۔ میں نے بہت واقعات ایسے سنے ہیں کہ بعض عورتوں نے میموں (عیسائی ڈاکٹر عورتوں) کا علاج شروع کیا پھر اُن پر اَیسا اَثر پڑا کہ کم بختوں نے دین بدل دیا اَور بعض نے دین نہیں بدلا تو پردہ کرنا چھوڑدیا۔ اَور بعض نے لباس اَور زیور وغیرہ میں اُن کا طرز اِختیار کر لیا۔ یہ تو سب سے کم دَرجہ کا اَثر ہے اَب روز بروز اِس کی زیادتی ہو رہی ہے۔ (الکمال فی الدین ص ٧٩) ایک شخص نے بیان کیا کہ ایک لڑکا نو تعلیم یافتہ ہے اَور وہ اَپنی بیوی سے متنفر ہے اَور اُس کے رشتہ داروں میں کوئی لڑکی ہے اَور وہ ایم اے پاس ہے، اُس سے اِس کا تعلق ہے اَور اِس لڑکی کا میلان بھی اُس کی طرف ہے اَور اِس لڑکی کے ماں باپ نے جو اِس کی شادی کرنا چاہا تو اُس نے صاف اِنکار کردیا اَور یہ کہا کہ ہم اَپنی مرضی کا ڈھونڈیں گے جس کا ہم نے تجربہ کر لیا ہے۔ جناب یہ نتیجہ ہے اُس آزادی (بے پردگی) اَور جدید تعلیم کا۔ جن عورتوں کی یہ حالت ہو، بتلائیے کیا وہ خانگی اُمور کو اَنجام دے سکیں گی اگر شوہر بیمار ہو تھکا ہو کیا وہ پا ؤں دبائیں گی یا بچوں کی خدمت کریں گی۔ ہاں بس اُس کام کی ہیں کہ اَولاد جنا کریں بلکہ اگر کوئی مشین بچہ جننے کی اِیجاد ہو تو یہ اِس سے بھی آزاد ہوجائیں اَور یہ کہہ دیں گی کہ کیا ہمارا پیٹ فٹن ہے جو ہم بچہ کا بوجھ لادے لادے پھریں۔ اَب بھی اُن سے جس قدر ہو سکتا ہے بچوں سے قطع تعلق رکھتی ہیں، بچہ پیدا ہوا اَور کسی عورت کے حوالہ کردیا۔