ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2012 |
اكستان |
|
اَور وہ اِن سے براء ت کا اِظہار کرتے ہیں۔ جبکہ مولاناتقی عثمانی نے اِس اِجلاس میں یہ بات کہی : ولکن بما ان ذالک یجعل العملیة مشابھة للتمویل الربوی وان کان مبنیا علی عقود مشروعة فاننا لا نحب التوسع فی ذلک۔ وانما اجزناہ للفترة المرحلیة لا یجاد بدیل لسندات الخزینة ونؤکد الآن علی مصدری الصکوک ان یکون البیع فی النھایة علی سعر السوق۔ (صکوک الاجارہ : حاشیة ص ٤٠٤) ''لیکن چونکہ اَصل قیمت یعنی قیمت اِسمیہ پر واپس خریدنے کی شرط صکوک کے عمل کو جو اَگرچہ شرعی عقود پر مبنی ہے سودی تمویل کے مشابہ کر دیتی ہے اِس لیے ہم اِس میں مزید گنجائش کو پسند نہیں کرتے۔ ہم نے اِس کی اِجازت محض اس وجہ سے دی تھی کہ اِبتدائی مرحلہ میں سندات خزانہ(Treasury Bills) کا کوئی متبادل نکالا جائے۔ اَب ہم صکوک جاری کرنے والوں کو تاکید کرتے ہیں کہ مدت کے اِختتام پر واپس خرید مارکیٹ ریٹ پر ہو۔'' لیکن شیخ عبدالستار اَبو غدہ اَور ڈاکٹر حسین حامد حسان نے صکوک کے منشور میں قیمت اِسمیہ پر واپس خریداری کی شرط کے باوجود صکوک کے جواز کو باقی رکھا۔ اِن حضرات کی دلیل مختصر اَلفاظ میں یہ تھی کہ یہ صکوک چند عقود اَور وعدوں پر مشتمل ہیں جن کی تمام شرائط اَور جن کے تمام شرعی تقاضے پورے ہیں اَور چونکہ عقود و شروط میں اَصل اَباحت وحلت ہے اِس لیے اِن کی حرمت کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ علاوہ اَزیں اِن معاملات کا اِس شکل میں اکٹھا ہونا خالص قرض سے بالکل جدا چیز ہے کیونکہ پہلے بیع پھر اِجارہ اَور پھر بیع، یہ معاملات حقیقت کے اِعتبار سے نہ تو قرض ہیں اَور نہ ہی قرض کے مشابہ ہیں کیونکہ اِجارے اَور قرض کے درمیان اُن کی شرائط اَور اُن کے اَحکام و تقاضوں کے اِعتبار سے بڑا فرق ہے۔