ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2012 |
اكستان |
|
نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ تَنَاشُدِ الْاَشْعَارِ فِی الْمَسْجِدِ وَعَنِ الْبَیْعِ وَالْاِشْتِرَائِ فِیْہِ وَاَنْ یَّتَحَلَّقَ النَّاسُ یَوْمَ الْجُمُعَةِ قَبْلَ الصَّلٰوةِ فِی الْمَسْجِدِ ۔ ١''حضور ۖ نے مسجد کے اَندر شعر پڑھنے اَور خرید و فروخت کرنے اَور نمازِ جمعہ سے پہلے حلقہ باندھ کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔'' چونکہ نبی کریم ۖ نے مسجد میں اَشعار پڑھنے سے منع فرمایا تھا اِس لیے دُوسرے خلیفہ راشد حضرت اَمیر المو منین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی سے باہر ایک جگہ بنا دی تھی اَور حکم دیا تھا کہ اگر کوئی شخص شعر وغیرہ پڑھنا چاہے تو مسجد سے باہر اِس جگہ آ کر پڑھ لے۔ حدیث ِپاک کے اَلفاظ ملاحظہ ہوں :وَعَنْ مَالِکٍ قَالَ بَنٰی عُمَر رَحْبَةً فِیْ نَاحِیَةِ الْمَسْجِدِ تُسَمّٰی الْبُطَیْحَائَ وَقَالَ مَنْ کَانَ یُرِیْدُ اَنْ یَّغْلُطَ اَوْ یُنْشِدَ شِعْرًا اَوْ یَرْفَعَ صَوْتَہ فَلْیَخْرُجْ اِلٰی ھٰذِہِ الرَّحْبَةِ ۔(مشکوة شریف ص ٧١) ''حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد (نبوی) کے کنارے ایک کھلی جگہ بنائی تھی جس کا نام ''بطیحائ'' تھا اَور فرمایا جو شخص باتیں کرنا چاہے یا شعر پڑھنا چاہے یا زور سے بولنا چاہے تو اُسے چاہیے کہ اِس کھلی جگہ ''بطیحا'' میں آ جائے۔'' اِس حدیث کی شرح میں ایک شافعی عالم حافظ اِبن ِحجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ ''حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد سے باہر شعر پڑھنے کے لیے جگہ اِس لیے بنائی تھی تاکہ مذموم (برے) اَشعار لوگ مسجد میں نہ پڑھیں لیکن گیارہویں صدی کے مجدد ملا علی قاری حنفی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ : ١ مشکوة ص ٧٠، اَبو داود جلد اَول ص ١٥٤، ترمذی جلد اَول ص ٤٣۔