ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2012 |
اكستان |
|
چنانچہ سب کا اِتفاق حضرت صدیق رضی اللہ عنہ پر ہو گیا اَور موجودہ لوگوں نے اُن کے دست ِ حق پر بیعت کر لی۔ اِبتداء بیعت کی ایک اَنصاری سے ہوئی ١ پھر دُوسرے دِن عام بیعت ہوئی اَور تمام مہاجرین و اَنصار نے آپ کو خلیفۂ رسول اللہ تسلیم کر لیااَور چند روز کے بعد جب آیت اِستخلاف اَور آیت ِ تمکین کے بیان کیے ہوئے اَوصافِ خلیفۂ موعود کے اُن میں پائے گئے تو سب کی آنکھیں کھل گئیں کہ وہ خلیفۂ موعود آپ ہیں۔ خدا نے اَپنا وعدہ ہمارے پردے میں پورا کیا۔ والحمد للہ علی ذالک۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق بعض روایات میں ہے کہ اُنہوں نے بلا توقف اِبتداء ٢ ہی میں بیعت کر لی تھی اَور صحیح بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ چھ مہینے کے بعد ،ممکن ہے کہ اُنہوں نے دو مرتبہ بیعت کی ہو، پہلی مرتبہ مجمع عام ١ میں نہ ہوئی ہو اِسی لیے عام لوگوں کو غلط فہمی سے بچانے کے لیے چھ مہینے بعد مجمع عام میں بیعت کی ۔ خود علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی زبان سے جوکچھ منقول ہے اُس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اُنہوں نے ایک لمحہ کے لیے بھی حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے خلیفۂ برحق ہونے میں تردد نہیں کیا۔ علامہ حافظ عبدالبر اِستیعاب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں : عن قیس بن عباد قال قال لی علی بن ابی طالب ان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض لیالی وایاما ینادی بالصلوة فیقول مروا ابا بکر یصلی بالناس فلما قبض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نظرت فاذا الصلوة علم الاسلام وقوام الدین فرضینا لدنیانا من رضی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم لدیننا فبایعنا ابا بکر۔ ( باقی صفحہ ٥٧) ١ تاریخ الخلفاء ٢ فتح الباری جلد ہفتم ٣٧٦ میں ہے وقد صحح ابن حبان وغیرہ من حدیث ابی سعید الخدری ان علیا بایع ابابکر فی اول الامر یعنی اِبن حبان اَور اُن کے سوا دُوسرے محدثین نے بھی حضرت اَبو سعید خدری کی اِس روایت کو صحیح کہا ہے کہ حضرت علی نے شروع ہی میں حضرت اَبوبکر سے بیعت کر لی تھی۔ ٣ چنانچہ فتح الباری جلد ہفتم ٣٧٩ میں اِس قول کو ذکر کر کے بہت پسند کیا ہے۔