ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2012 |
اكستان |
|
اَور کرامت حاصل ہے۔ وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَاo فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَاo قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا o (سُورة الشمس)''اَور نفس جیسا کہ اِس کو ٹھیک بنایا پھر سمجھ دی اِس کو برائی کی اَور اَچھائی کی، پس وہ آدمی کامیاب ہو گیا جس نے اپنے آپ کو سنوار ا اَور نامراد ہوا جس نے اِس کو برباد کیا۔ '' چونکہ اِنسان کا جسم عناصرِ اَربعہ سے مرکب ہونے کی وجہ سے مجموعۂ اضداد ہے اَگر اِنسان برائی کی طرف بڑھنا چاہے تو یہی اِنسان برائی میں ترقی کرکے فرعون و نمرود بنا اَور شیطان سے بھی آگے نکل گیا کہ خدائی کا دعوی کرنے لگا اَور بھلائی میں ترقی کی اَور اللہ تعالیٰ کی مرضیات کو اَپنایا تو فرشتوں سے بھی آگے نکل گیا۔ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : ان الروح تتحرک للخیر ومن حرکتھا یظھر نور فی القلب یراہ الملک فیلھم الخیر عند ذالک وتتحرک للشر ومن حرکتھا تظھر ظلمة فی القلب فیری الشیطان الظلمة فیقبل بالاغوائ........الخ (عوارف المعارف ص٢٢٠ ج٤) ''رُوح خیر کو دیکھ کر متحرک ہوتی ہے اَور اِس کی حرکت سے قلب میں نور ظاہر ہوتا ہے کہ فرشتہ اِس کو دیکھ کر خیر کا اِلہام کرتا ہے۔ اَور شر سے بھی رُوح متحرک ہوتی ہے جس سے قلب میں ظلمت پیدا ہوتی ہے پس شیطان اِس کو دیکھ کر اِس کو باغی بنا دیتا ہے۔'' معلوم ہوا کہ اِنسان کا قلب ایک میدانِ کارزار ہے کہ جس میں شر اَور خیر دونوں کا گزر ہے۔ پس اِنسان کی کرامت، شرافت اَور بزرگی اَور نمک حلالی اِسی میں ہے کہ اپنے پیدا کرنے والے خالق کو شناخت کرے اَور اُس کے خلاف عَلَم بغاوت بلند نہ کرے بلکہ ایک تابعدار مطیع اَور نمک حلال بندہ بن جائے اَور منشاء باری تعالیٰ کے مطابق اپنی زندگی گزارے۔ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے :