ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2012 |
اكستان |
|
میں ڈالنے کا یا نقصان پہنچانے کا قصد نہ ہو۔ جب یہ تمام شرائط موجود ہوں تو دین کی بیع جائز ہے اَور اَگر اِن میں سے ایک بھی شرط مفقود ہو تو بیع جائز نہ ہوگی۔ (3) جب موجودات اعیان و منافع ہوں : عمل میں سرمایہ لگانے کے بعد موجودات اعیان و منافع کی صورت اِختیار کر لیتے ہیں مثلًا منصوبہ سازمشینیں اَور آلات خرید لے تاکہ اُن کو اُجرت پر دے یا زمین خرید کر اُس کی اِصلاح کرے یا اُس پر عمارت تعمیر کرے اَور پھر اُس کو اُجرت پر دے۔ موجودات تنہا اَعیان (اَشیاء ) ہوں یا تنہا منافع ہوں یا اَعیان و منافع کا مجموعہ ہوں صکوک مالی اَشیاء میں حصہ کی نمائندگی کرتے ہیں اَور اِسی وجہ سے کسی بھی شرط یا قید کے بغیر اُن کا تداول جائز ہے۔ (4) جب موجودات میں نقود، دیون، اعیان اَور منافع مِلے جُلے ہوں : اِس حالت میں صکوک اُن ملی جلی چیزوں کے غیر متعین (مشاع) حصے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اِن صکوک کا معاملہ کمپنیوں کے حصص جیسا ہے کہ طرفین کی رضا مندی سے اُس قیمت کے عوض میں جس پر دونوں راضی ہوں بیع و شراء کے ساتھ تداول جائز ہے خواہ وہ قیمت صکوک کی قیمت اِسمیہ کے مساوی ہو یا اُس سے کم و بیش ہو۔ لیکن بعض فقہا کے نزدیک یہ معاملہ اُس وقت جائز ہے جب نقود(نقدی) و دَیون سے اَعیان و منافع نسبتًا زیادہ ہوں کیونکہ شریعت ِ اِسلامیہ غالب پرکل والا حکم لگاتی ہے۔ مجمع فقہ اِسلامی نے اِس صورت کو اِختیار کیا ہے۔ بعض دیگر حضرات نے موجودات کے محض مخلوط ہونے کو کافی سمجھا اَور اُنہوں نے اعیان و منافع کے غلبہ کی شرط نہیں کی بلکہ تبعیت کو اِختیار کیا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ جس شے کی علیحدہ مستقل بیع جائز نہیں اُس کی بیع اُس وقت جائز ہے جب وہ کسی اَور قابل ِ فروخت شے کے تابع ہو۔ فتاوی مجموعة البرکة