ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2012 |
اكستان |
|
بڑے خوش ہوئے سُرَّ مِنْ کَثْرَةِ فُقَہَائِھَا ١ وہاں کے لوگ مِلے جو گویا طالب علم تھے یا طلب ِ علم رکھتے تھے چاہے علم سے فارغ ہو چکے ہوں فاضل ہو چکے ہوں مگر طلب ِ علم تھی ۔تو جب آدمی بات کرتا ہے تو طالب ِعلم کا بھی اَنداز ہوجاتا ہے بات کرتے وقت کہ یہ کس اِستعداد کا ہے اُس کے سوال سے پھر اُس کو جو جواب دیا جاتا ہے اُس کی سمجھ سے اَور سوال کی باریکی سے گہرائی کا تمام چیزوں کا اَنداز ہوجاتا ہے۔ تو دیکھا کہ چار سو آدمی تھے ایسے کہ جو فقہیہ کہلانے کے قابل تھے اَرْبَعُ مِأَئةٍ قَدْ فَقِہُوْا۔ توبڑے خوش ہوئے اَور اُنہوں نے کہا کہ اِبن ِمسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد وہ اِس بستی کے چراغ ہیں اَصْحَابُ بْنِ مَسْعُوْدٍ سُرُجُ ھٰذِہِ الْقَرْیَةِ ٢ ایک دفعہ اُنہوں نے فرمایا کہ اِس بستی کو اُنہوں نے علم سے بھر دیا ہے اللہ تعالیٰ اُن کے اُوپر رحمت فرمائے رَحِمَ اللّٰہُ اِبْنَ اُمِّ عَبْدٍ مَلَائَ ھٰذِہِ الْقَرْیَةَ عِلْمًا ٣ بڑے تعریفی کلمات ہیں یہ۔ قاضی عطاء یہیں کے آدمی تھے فرما دیا کہ مجھے تو وقت ملے گا نہیں شریح سے کہہ دیا کہ تم ہی فیصلے دیتے رہوہاں میں آؤں گا تمہاری عدالت میں دیکھوں گا کیسے فیصلے دیتے ہو ،وہ فیصلے سنے اَور بہت خوش ہوئے بڑی دَاد دِی فرمایا قُمْ یَا شُرَیْحُ فَاَنْتَ اَقْضَی الْعَرَبِ ٤ جیسے شاباش دیتے ہیں کہ تم بہترین فیصلہ کرتے ہو۔ اِسلام کا عدالتی نظام ،یہودی مسلمان ہوگیا : پھر خود بھی اَپنا ایک زِرہ کاکیس بھی بھیج دیا وہیں اِن کی عدالت میں، اِختیار تھا کہ نہ بھیجتے خود کرتے مگر اللہ کی اِس میں بھی حکمت تھی بہت سے نئے مسائل حل ہوتے چلے گئے۔ بیٹا باپ کے حق میں گواہی دے سکتا ہے یا نہیں دے سکتا ۔یہودی نے چرالی تھی زِرہ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دعوی کیا اَور وہ اِنہی کی عدالت میں آگیا اِن کو لے کر، پوچھا اُن سے گواہ جناب کے پاس ؟ ١ نصب الرایة ج ١َوّل منزلة الکوفة من علوم الاجتہاد ٢ اَیضًا ٣ اَیضًا ٤ اَیضًا