ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2012 |
اكستان |
|
ظاہر ہے کہ اِس تصریح کے بعد اِس کہنے کی گنجائش کب ہے کہ چہرہ کا چھپانا فرض اَور واجب نہیں۔ (اَلقول الصواب فی تحقیق مسئلہ الحجاب ص٦٠) چہرہ کا پردہ ضروری ہونے کی ایک اَور دَلیل : اِحْرَامُ الرَّجُلِ فِیْ رَأْسِہ وَاِحْرَامُ الْمَرْأَةِ فِیْ وَجْھِھَا (یعنی مرد کا اِحرام اُس کے سر میں اَور عورت کا اِحرام اُس کے چہرہ میں ہے مطلب یہ ہے کہ) حج میں مردوں کو سر ڈھانکنا حرام ہے اَور عورتوں کو چہرہ پر کپڑا ڈالنا ناجائز ہے۔ اِس سے یہ اِستنباط نہیں ہو سکتا کہ پردہ عورتوں کو نہ کرنا چاہیے بلکہ اِس سے تو اَور پردہ کے تأکد (ضروری ہونے) پر اِستدلال ہوتا ہے کہ عورت کو ساری عمر چہرہ ڈھانپ کر رکھنا ضروری ہے صرف حج میں اِس کو منہ کھولنا چاہیے اگر یہ حج کی خصوصیت نہ ہوتی تو وَاِحْرَامُ الْمَرْأَةِ فِیْ وَجْھِھَا کے معنی کچھ نہیں ہوں گے۔ اگر عورت کو ساری عمر چہرہ کھولنا جائز ہوتا تو اِس کے کیا معنی کہ عورت کا اِحرام چہر ہ میں ہے۔ اِس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عورت کے لیے چہرہ (پردہ) بہت قابلِ اِہتمام ہے۔ اِحرام میں حکم دیا گیا ہے کہ مرد سر کھلا رکھیں اَور عورتیں چہرہ کھلا رکھیں مگر اِس کا مطلب یہ ہے کہ کپڑا چہرہ سے نہ لگے یہ نہیں کہ اَجنبی مردوں کو چہرہ دِکھلاتی پھریں۔ پس (اِحرام میں بھی) عورتیں اپنے چہرہ پر اِس طرح کپڑا لٹکائیں کہ چہرہ سے علیحدہ رہے۔ ( اَلحج المبرور۔ اَلتبلیغ ج ٣) عورت کے لیے چہرہ کھولنے اَور مردوں کو دیکھنے کا شرعی حکم : قرآنی آیات و اَحادیث و رَوایاتِ فقہیہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے لیے اَصلی حکم احتجاب و استتار بجمیع اعضائھا وارکانھا (یعنی پورے جسم اَور تمام اَعضاء کا پردہ اَور خود پردہ میں رہنا شرعًا) ثابت ہے۔ اَلبتہ جہاں ضرورت شدید ہو یا بسبب کبرسن (بڑھاپے کی وجہ سے) مطلقًا فتنہ کا اِحتمال اَور خواہش باقی نہیں وہاں چہرہ اَور ہتھیلی کا کھولنا جائز ہے ۔ اَور یہی مطلب ہے اِن کے ستر نہ ہونے کا۔ اِس سے معلوم ہو گیا کہ مشتہات عورتوں کو اَجنبی کے سامنے آنا اَزرُوئے قرآن و حدیث و فقہ