ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2012 |
اكستان |
|
میں اِس کو اِختیار کیا ہے۔ مجموعہ دلّہ کے شرعی مشیر کی بھی یہی رائے ہے ،وہ لکھتے ہیں : ''ضروری ہے کہ عمل میں اَعیان و منافع کا معاملہ نقود و دیون کی جانب ہو یعنی اِن کا تبادلہ نقدی سے ہو، اعیان و منافع کا غالب ہونا شرط نہیں ہے اَگر چہ اَولیٰ ہے۔ لہٰذا بس اِتنی بات کافی ہے کہ اعیان و منافع موجود ہیں۔ اِس کی دلیل یہ حدیث ہے رسول اللہ ۖ نے فرمایا من باع عبدا ولہ مال فمالہ للبائع الا ان یشترطہ المبتاع (جس نے غلام بیچا اَور غلام کے پاس کچھ مال ہوتو وہ مال بائع کا ہے اِلا یہ کہ مشتری غلام کے ساتھ اُس مال کی بھی شرط کرلے)۔ جب مشتری نے غلام کے پاس موجود مال کے مبیع میں شامل ہونے کی شرط کی تو طے شدہ قیمت غلام اَور اُس کے پاس موجود مال دونوں کے عوض میں ہوئی حالانکہ یہ ممکن ہے کہ غلام کے پاس جو مال ہے وہ طے شدہ قیمت سے کہیں زیادہ ہو، اِس جواز کی یہی توجیہ ہو سکتی ہے کہ نقدی غلام کے تابع ہے مضاربت اَور مشارکہ میں بھی نقود اعیان ومنافع کے تابع ہوتے ہیں جو کہ مشارکہ کی حقیقت کے اِعتبار سے اَصل ہوتے ہیں کیونکہ مشترکہ نفع حاصل کرنے میں یہ تجارتی سامان ہوتے ہیں ۔ '' AAOIFI کے معاییر شرعیہ نے تداولِ صکوک کے لیے مندرجہ ذیل ضوابط مقرر کیے : (1) صکوک کی فروختگی اَور تخصیص(یعنی اُن کی الاٹمنٹ) کے بعد اَور کاروباری عمل شروع ہونے کے بعد اُن کا تداول جائز ہے جب موجودات اعیان ہوں یا منافع ہوں یا خدمات ہوں۔ عمل شروع کرنے سے پہلے تداول صرف اُس وقت جائز ہوگا جب اُس میں عقد صَرف کے ضوابط شرعیہ کا لحاظ کیا گیا ہو جیسا کہ تصفیہ مکمل ہونے کے بعد جب موجودات دیون کی شکل میں ہوں یا صکوک جس شے کی نمائندگی کر رہے ہوں اُس کی اُدھار بیع مکمل ہو چکی ہو تو صکوک کے تداول میں دیون کے اَحکام کی پابندی لازمی ہے۔