ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2012 |
اكستان |
|
سرمائے سے اَشیاء اَور زمین خریدتا ہے پھر اُن کو اُدھار فروخت کرتا ہے تو اِس طرح وہ اپنے موجودات کو دیون میں بدل لیتا ہے جو اِس کے خریداروں کے ذمہ میں آتے ہیں۔ بیع سلم میں رأس المال پہلے اَدا کرنے سے منصوبے والا اپنے موجودات یعنی نقدی کو دیون میں بدل لیتا ہے کیونکہ مسلم فیہ پر رب السلم کے قبضہ کرنے سے پہلے وہ بائع کے ذمہ دین ہوتا ہے۔ اِس حالت میں صکوک دیون کی نمائندگی کرتے ہیں اَور جمہور کے نزدیک اِن صکوک کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے جبکہ مالکیہ کے نزدیک چند شرائط کے ساتھ جائز ہے جو یہ ہیں : (i) مشتری مدیون (مقروض) کو ثمن (قیمت)پہلے ہی اَدا کردے تاکہ یہ بیع الکالی بالکالی (اُدھارکی اُدھار کے عوض بیع) نہ بنے جس کی حدیث میں ممانعت ہے۔ (ii) مسلم اِلیہ یعنی جس کے ذمہ مال کی فراہمی دین ہے وہ اُدھار کرنے والے مشتری (یعنی رب السلم ) کے شہر اَور علاقہ کا ہو، تا کہ اُدھار کرنے والے مشتری کو مدیون بائع کی مالی حالت کا علم ہو کہ وہ غنی ہے یا فقیر ہے۔ (iii) مدیون دین کا اِقرار کرتا ہو۔ اَگر اِنکار کرتا ہو تو اُس سے دین کا تبادلہ کرنا جائز نہیں ہے۔ (iv) دین کو غیر جنس کے عوض فروخت کرے۔ اَور اگر ہم جنس میں فروخت کرے تو جائز نہیں ہے۔ (v) نہ دین نقدی ہو نہ ثمن نقدی ہو اَگرچہ نقود مختلف نوعیتوں کے ہوں کیونکہ اُن کی بیع کی صحت کے لیے تقابض شرط ہے (یعنی اَگر دونوں طرف سونا یا چاندی ہو یا ایک طرف سونا اَور دُوسری طرف چاندی ہو تو مجلس ِعقد میں اِن پر دونوں طرف سے قبضہ شرط ہے ۔اَور اَگر دونوں طرف سے کرنسی ہو تو مجلس ِعقد میں کم اَز کم ایک طرف سے قبضہ ہونا شرط ہے)۔ (vi) دین اُس چیز کا ہو جس کی بیع قبضے سے پہلے جائز نہ ہو۔ اِس طرح طعام (غلہ)سے اِحتراز ہوا کیونکہ طعام پر قبضہ سے پہلے بیع جائز نہیں ہے۔ (vii) مدیون اَور خریدار کے دَرمیان عداوت نہ ہو۔ اِسی طرح مشتری کا مدیون کو مشقت