ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2012 |
اكستان |
|
کے لیے اَلگ اَلگ فرہنگوں کا تیار کرنا ضروری ہے، عربی میں نئے کلمات وضع کرنے کا ایسا نظام موجود ہے کہ قواعد کی مدد سے روزبروز بڑھتی ہوئی ضرورتوں کے مطابق نئے کلمات وضع کیے جاسکتے ہیں اَور لطف یہ کہ یہ نئے کلمات زبان کے بنیادی ذخیرہ اَلفاظ میں اِضافہ کا باعث بھی نہیں ہوں گے، اِس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے تو آپ عربی میں ذخیرہ اَلفاظ بجائے ایک ہزار کے دَس ہزار تک بڑھا سکتے ہیں، اِس لیے کہ عربی میں دس یا اِس سے بھی زیادہ لفظوں کے یاد کرنے کی محنت دُوسری زبانوں کے ایک لفظ کے یاد کرنے سے زیادہ نہیں ہوگی۔ دُوسرے یہ کہ عربی میں ہر نیا کلمہ معلوم مادّوں سے معلوم قاعدوں کے مطابق وضع کیا جائے گا جس کا مفہوم اُس کے وضع کیے جانے سے پہلے ہی واضح اَور معلوم ہوگا۔ عربی کی اِبتدائی تعریف کے قاعدے جاننے والے مبتدی بھی ایسے ایسے کلمات وضع کرلیتے ہیں جو نہ تو مستعمل ہیں اَور نہ ہی اِن کی ضرورت ہے، چہ جائیکہ نئے کلمات کی ضرورت ہو اَور وہ وضع نہ کیے جاسکیں۔ (٤) قابلِ قبول صوتی نظام : عالمی زبان کے لیے ضروری ہے کہ اُس کے کلمات کا تلفظ آسان اَور دُنیا بھر کی اَقوام کے لیے قابلِ قبول ہو، یہ خوبی عربی میں دُوسری زبانوں کی نسبت بدرجۂ اَتم موجود ہے، ''ث، س اَور ص ''کا فرق نیز ''ذ، ز، ض اَور ظ کا اِمتیاز اَور اِسی طرح ق اَور ک ''کا فرق بظاہر عربی زبان کے تلفظ کی خامی نظر آتا ہے لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ دُنیا کی مختلف اَقوام اَور مختلف آب وہوا میں پرورش پانے والے مسلمان بچے قرآنِ کریم کی تلاوت درست تلفظ کے ساتھ کرتے ہیں اَور ہر مُلک کے قاری بین الاقوامی قراء ت کے مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں اَور ہرایک کا تلفظ مثالی ہوتا ہے، تو اِس سے اِس اَمر کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ عربی کا تلفظ دُنیا بھر کی اَقوام میں رائج ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے، یہ درست ہے کہ ایک چالیس سالہ بوڑھے اَنگریز کو ہم ص اَور س کا فرق نہیں بتاسکتے لیکن کیا اَنگریزی کے حروف