ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2012 |
اكستان |
|
یہ سب حضرات جو اَعلیٰ درجہ کے اہلِ علم و کمال تھے حضرت مفتی صاحب کے بڑے اَساتذہ تھے مگر کسی صاحب ِکمال سے کچھ حاصل کرنا یہ حاصل کرنے والے کی اپنی صلاحیت پر موقوف ہوتا ہے اِس لحاظ سے حضرت مفتی صاحب کے بارے میں کہا جائے گا کہ یہ اُن کا کمال تھا۔ تعظیم ِاَساتذہ : اَور علوم ِ دینیہ میں جب تک اَساتذہ خوش نہ ہوں یا طالب ِعلم کے دِل میں اَساتذہ کی محبت و عظمت نہ ہواُس وقت تک علم حاصل کرنے والے سے آگے سلسلۂ فیض نہیں چل سکتا۔ حضرت مفتی صاحب ایسے ہی خوش قسمت تھے کہ جن سے اَساتذہ خوش تھے اَور وہ اَساتذہ کا بہت احترام کرتے تھے۔ ١٩٧٠ء میں میری خوش دامن صاحبہ دیو بند سے لاہور تشریف لائی ہوئی تھیں مفتی صاحب بھی جامعہ مدنیہ تشریف لائے جب اُنہیں اِن کی موجودگی کی اِطلاع ہوئی تو فورًا اِن کے لیے ہدیہ اِرسال فرمایا میں نے منع کیا تو فرمایا کہ آخر وہ میرے اُستاذ (حضرت مولانا عبدالحق صاحب مدنی رحمةاللہ علیہ) کی اہلیہ ہیں میرے لیے بہت قابلِ اِحترام ہیں۔ ١٩٦٧ء میں حضرت والد صاحب رحمة اللہ علیہ تشریف لائے تو حضرت مفتی صاحب جامعہ میں حاضر خدمت ہوئے اَور دو دِن قیام فرمایا اُن کے ساتھ ١٩٦٥ء کے محاذِ لاہور کے نشانات شالا مار اَور مقبرہ جہانگیر وغیرہ (تاریخی) مقامات دیکھے ۔ اِس تعلق کی بنا پر جب مفتی صاحب وزیر اَعلیٰ ہوئے تو والد صاحب نے اُنہیں ایک گرامی نامہ تحریر فرمایا جس میں مبارکباد کے ساتھ تقوے پر قائم رہنے کی تلقین تھی کہ حق تعالیٰ کی طرف سے رہبری ہوتی رہے گی کیونکہ ایک مقام تک پہنچ جانا آسان ہے اَور قائم رہنا مشکل ہے۔ اِتنا مضمون مجھے یاد ہے مضمون کی تقویت کے لیے جس آیت سے اِستدلال فرمایا گیا تھاوہ یہ تھی : یَآ اَیُّھَاالَّذِیْنَ أٰمَنُوْا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا۔( الانفال : ٢٩ ) ''اے اہل ِ ایمان! اگر تم تقوی اِختیا کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان (حق و باطل کی سمجھ دے کر) فیصلہ کردے گا۔ ''