ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2012 |
اكستان |
|
تو پردہ اُس وقت تک اُترا ہی نہیں تھا تو آناجانا اگر ہو اِس طرح سے ،والدہ عورت ہوئیں رسول اللہ ۖ کے سامنے آرہی ہیں اَور رسول اللہ ۖ تشریف فرماہیں تو یہ اِجازت لے کر بس داخل ہوجاتے ہیں تو ایسے کسی کو بھی اِجازت نہیں تھی۔ رسول اللہ ۖ نے اِنہیں خصوصی اِجازت دی اٰذَنُکَ اَنْ تَرْفَعَ الْحِجَابَ اَوْکَمَا قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ ١ مختلف طرح پڑھاجاسکتا ہے یہ لفظ میںاِجازت دیتا ہوں تمہیں یہ کہ تم پردہ اُٹھا سکتے ہو یعنی پردہ آہستہ آہستہ ہٹاؤ مجھے منع کرنا ہوگا منع کردُوں گا ورنہ اَگر پردہ اُٹھانے کے دَرمیان میں نے منع نہ کیا تو پھر اِجازت ہے تم آسکتے ہو تو اِتنی حاضر باشی اَور اِتنا قرب اَور سمجھ ۔ اِن کی بلند فکر اَور آپ ۖ کا اِن پر اعتماد : تو اِن کی سمجھ علم اَور تقوی کے بارے میں ایک حدیث سناتا ہوںآپ کو کہ آقائے نامدار ۖ نے فرمایا رَضِیْتُ لِاُمَّتِیْ مَا رَضِیَ لَھَا اِبْنُ اُمِّ عَبْدٍ ٢ میں اپنی اُمت کے لیے اُس چیز پر راضی ہوں جس چیز پر اِبن اُمِ عبد راضی ہوں تویہ اُمت کے لیے بھی رسول اللہ ۖ کو اِن کی سمجھ اِن کے اِخلاص اِن کی بلندیٔ فکر تمام چیزوں پر اِعتماد ہے، اگر فکر کی بلندی نہ ہو تو چھوٹی چیز پر رہ جاتا ہے آدمی آگے جا نہیں سکتا ۔ قرآن اَور اِبن مسعود : آقائے نامدار ۖ نے کچھ صحابہ کرام کے نام لیے کہ قرآنِ پاک اُن سے پڑھو اُن میں ایک حضرت عبداللہ اِبن ِمسعود رضی اللہ عنہ کانام ہے حضرت عبداللہ اِبن ِمسعود رضی اللہ عنہ سے ایک دفعہ آقائے نامدار ۖ نے فرمایا کہ مجھے سناؤ یہ عرض کرنے لگے اَقْرَأُ عَلَیْکَ وَعَلَیْکَ اُنْزِلَ ٣ میں جناب کو سُناؤں(حالانکہ) اُترا جناب پر ہے اَور سناؤں میں ! تو اِرشاد فرمایا کہ نہیں میرا دِل چاہتا ہے کہ میں دُوسروں سے سنوں تو پھر اِنہوں نے سنانا شروع کیا۔ یہ فرماتے ہیں کہ ستر سورتیں ایسی ١ مُسند اَبی یعلٰی المُوصلی ٤٩٨٩ ٢ مُصنف اِبن اَبی شَیبہ کتاب الفضائل رقم الحدیث ٣٢٢٣١ ٣ بخاری شریف کتاب فضائل القرآن رقم الحدیث ٥٠٤٩