ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2012 |
اكستان |
|
یعنی کسی ضرورت سے باہر نکلنا پڑے تو چادر سے سر اَور چہرہ بھی چھپا لیا جائے جیسا کہ سورہ نور کے ختم کے قریب غَیْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِیْنَةٍ میں اِس کی تفسیر گزر چکی ہے۔ ( بیان القرآن ٩۔ ٦٥ ) یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ کی تفسیر میں صاحب ِدُر منشور نے محمد اِبن ِسیرین سے نقل کیا ہے کہ میں نے عبیدہ سلمانی سے اِس کے معنٰی پوچھے تو اُنہوںنے چادر میں سر کے ساتھ چہرہ بھی چھپالیا اَور آنکھ کھلی رہنے دی ۔اَور اِس حکم کی جو علت وہاں مذکور ہے ذَالِکَ اَدْنٰی اَنْ یُّعْرَفْنَ الخ اِس کا حاصل بھی خوف ِ فتنہ ہے گو فتنہ کے اَنواع مختلف ہوں۔ ( بیان القرآن ٨۔ ٣٣ ) ایک شبہ اَور اُس کا جواب : پردہ کی آیت کے متعلق کسی صاحب نے ذکر کیا کہ اِس (حکم) کی مخاطب تواَزواجِ مطہرات ہیں۔ فرمایا لوگوں (کی سمجھ) میں بڑی کجی ہوگئی ہے اللہ تعالیٰ اِیمان محفوظ رکھے۔ اِس قدر فتنے ہیں حالانکہ یہ موٹی سی بات ہے کہ اَگر اِس کو مان بھی لیا جائے تو سمجھنا چاہیے کہ وہاں تو فتنہ کا اِحتمال کم تھا جب وہاں اِنسداد کیا گیا (یعنی پردہ کا حکم کیا گیا ) یہاں تو بدرجہ اَولیٰ اَور زیادہ ضروری ہے (کیونکہ یہاں تو واقعی فتنہ کا اِحتمال ہے) فرمایا تعجب نہیں کچھ زمانے کے بعد یہ کجی پیدا ہو کہ کلام ِ مجید کے ہم مخاطب ہی نہیں کیونکہ (اُس وقت) ہم موجود ہی نہیں تھے۔ (حسن العزیز نمبر١ ص ١٦٣ ملفوظ ٢٦١) چہرہ کا پردہ واجب ہونے کی قطعی دلیل : یَآاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِاَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَآئِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ ۔ (سُورة الاحزاب آیت ٥٩) '' اے پیغمبر کہہ دیجیے اپنی بیبیوں اَور صاحبزادیوں سے اَور دُوسرے مسلمانوں کی بیبیوں سے کہ نیچے لٹکا لیا کریں اپنے اُوپر تھوڑی سی چادریں (اِس آیت میں گھر سے باہر نکلنے کے ضابطہ کی تعلیم ہے کہ جو (نکلنا) کسی سفر وغیرہ کی ضرورت سے واقع ہو اُس وقت بھی بے حجاب مت ہو) بلکہ اپنی چادر کا پلہ اپنے چہرہ پر لٹکا لیں تاکہ چہرہ کسی کو نظر نہ آئے۔ ''