ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2012 |
اكستان |
|
قسط : ٢، آخری بنیادپرستی کامصداق ! مغرب کی نظرمیں ( حضرت مولانا سیّد اَرشد صاحب مدنی مدظلہم،ناظمِ تعلیمات دارُالعلوم دیوبند، اِنڈیا ) ٢٣صفر المظفر ١٤٣٣ھ / ١٨جنوری ٢٠١٢ء کودارُالعلوم دیوبند کے اُستاذالحدیث حضرت مولاناسیّد اَرشد صاحب مدنی دامت برکاتہم صاحبزادۂ شیخ العرب والعجم حضرت اَقدس مولانا سیّد حسین اَحمد صاحب مدنی قدس سرہ جامعہ علوم اِسلامیہ علامہ محمدیوسف بنوری ٹاؤن کراچی تشریف لائے اَور بعد اَز نمازِ مغرب آپ نے طلباء وفضلاء کے ایک بڑے مجمع سے خطاب فرمایا۔وعظ و نصیحت سے بھرپور یہ خطاب اِفادۂ عام کے لیے ہدیۂ قارئین ہے ۔ حصولِ علم کے لیے ضروری چیز : میرے بھائی ! آپ اِس طاقت کو محسوس کریں اَور مدرسوں کے اَندر آپ اپنی زندگی کو بنانے کے لیے وہ ثقل لائیں جس کے سامنے دُنیا کی بڑی سے بڑی طاقت اپنے سر کو جھکادے ، اِس کے لانے کا طریقہ کیا ہے ؟ اِس کے لانے کا طریقہ صرف یہی ہے کہ آپ اپنی زندگی کو اِس علم کے حاصل کرنے میں وقف کردیں ، علم اِس طرح حاصل نہیں ہوتا جس طرح آج کل کے زمانہ میں ہے کہ اِدھر گئے کتاب اُٹھائی اَور آکر اُستاد کے سامنے بیٹھ گئے ، وہ لوگ جن کو اللہ نے دماغ دیا ہوا تھا اَور وہ علم میں ڈوبے ہوئے تھے ، اُن لوگوں کا تجربہ ہے کہ ایک عالم کو عالم بننے کے لیے اَور طالب ِعلم کے علم کی ضمانت کے لیے تین چیزوں کا ہونا شرط ہے :(١) (طا لب علم)سبق میں آنے سے پہلے مطالعہ کرتا ہو،چاہے کچھ سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔(٢) جو سمجھا ہے اُس کی اِصلاح کے لیے اُستاد کے سبق میں غور وفکر کے ساتھ بیٹھتا ہو