ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2012 |
اكستان |
|
غزوۂ اُحد : جو دو شنبہ ٧ شوال ٣ھ کو ہوا۔ اِس غزوہ میں جبکہ مسلمانوں کو شکست ہوئی اَور کافروں کی فوج مسلمانوں کے لشکر کے بیچ میں آگئی جس کی وجہ سے رسولِ خدا ۖ کے اَور مسلمانوں کے دَرمیان جدائی ہوگئی اَور اِسی کے ساتھ یہ قیامت خیز خبر کفار نے مشہور کردی کہ آنحضرت ۖ شہید ہوگئے جو مسلمان جہاں تھا وہیں گِھر کر رہ گیا،اُس وقت سوائے حضرت طلحہ اَور حضرت سعد کے کوئی آپ ۖ کے پاس نہ تھا مگر تھوڑی دیر کے بعد پھر اَور صحابہ کرام آپ ۖ کے پاس پہنچ گئے اُن پہنچنے والوںمیں سب سے پہلا نمبر حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کا تھا۔ جب آنحضرت ۖ لڑائی ختم ہونے کے بعد پہاڑ پر چڑھے تو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ اُس وقت بھی جانثاری کے لیے ساتھ رہے۔ جب دوبارہ کفارہ کی آمد کی خبر سن کر آپ ۖ نے پھر تیار ہوجانے کا حکم دیا تو باجودیکہ صحابہ کرام بہت زخمی اَور بہت خستہ حال تھے مگر حکم پاتے ہی ستر آدمی فورًا تیار ہوگئے جن میں حضرت صدیق رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ یہ مستعدی خدا کو اِس قدر پسند آئی کہ قرآنِ مجیدمیں اِس کا ذکر فرمایا کہ : اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِ مِنْ بَعْدِ مَا اَصَابَھُمُ الْقَرْحُ۔(اٰل عمران)''وہ لوگ جنہوں نے اللہ اَور رسول (ۖ)کی پکار کو قبول کیا بعد اِس کے کہ اُن کو زخم پہنچ چکے تھے۔ '' غزوۂ خندق و خیبر : غزوۂ خندق میں خندق کے ایک جانب کی حفاظت حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے سپرد تھی اَور اِس طرف سے کوئی کافر عبور نہیں کر نے پاتا تھا۔ غزوۂ خیبر میں ایک روز حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سردارِ لشکر بنا کر بعض قلعوں کی فتح کے لیے بھیجے گئے اگرچہ اُس روز فتح نہیں ہوئی لیکن اُس روز کی لڑائی نے یہودیوں کا غرور ایک حد تک توڑدیا بالآخر حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر فتح پائی۔ (جاری ہے)