ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2011 |
اكستان |
|
''بعض علمائے کرام خصوصاً فقہ حنفی سے متعلق علمائے کرام کے خیال میں خون بہنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، نماز کے دوران خون بہہ جانے کی صورت میں کس کو کیاکرناچاہیے؟ اِس سوال کے جواب میں اُن کا فتویٰ (اَحناف کا فتوی) بہت طویل ہے تاہم اُن کے اِس نقطہ نظر کی تائید میںبظاہرکوئی ثبوت نہیں ہے۔'' ( حقیقت ِذاکر نائیک ص٢١٤ ) یہاں پرڈاکٹرصاحب نے فقہ حنفی سے متعلق علماء پراِلزام لگا دیاکہ وہ بلا ثبوت وضو ٹوٹنے کی بات کہتے ہیں حالانکہ خون سے وضو ٹوٹنے کے سلسلے میں بہت سی حدیثیں مروی ہیں، نیز صحابہ کرام کا تعامل بھی اِسی پر رہا، ذیل میں چند روایتیں ملاحظہ فرمائیں : (١) أَخْرَجَ الْبُخَارِیُّ عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا قَالَتْ : جَائَ تْ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَبِیْ حُبَیْشٍ ِلَی النَّبِِّصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔فَقَالَتْ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! ِنِّ امْرَأَة اُسْتَحَاضُ فَلَاأَطْھُرُ، أَفَأَدَعُ الصَّلَاةَ؟ قَالَ :لَا، ِنَّمَا ذٰلِکِ عِرْق وَلَیْسَتْ بِالْحَیْضَةِ ، فَِذَا أَقْبَلَتِ الْحَیْضَةُ فَدَعِ الصَّلَاةَ ، وَِذَا أَدْبَرَتْ فَاغْسِلِیْ عَنْکِ الدَّمَ قَالَ ھِشَام: قَالَ أب ثُمَّ تَوَضَّئِیْ لِکُلِّ صَلَاةٍ حَتّٰی یَجِیْیَٔ ذٰلِکَ الْوَقْتُ۔ (٢) اِذَا رَعُفَ أَحَدُکُمْ فِْ صَلَاتِہ فَلْیَنْصَرِفْ فَلْیَغْسِلْ عَنْہُ الدَّمَ ثُمَّ لْیُعِدْ وُضُوْئَہُ وَیَسْتَقْبِل صَلَا تَہ ۔(دارقُطنی)''دورانِ نمازاگرکسی کی نکسیرپھوٹ جائے تواُسے چاہیے کہ خون کودھولے اَور وضو دوہرائے۔'' (٣) عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ : اَلْوُضُوْئُ مِنْ کُلِّ دَمٍ سَائِلٍ۔(اخرجہ ابن عد فی الکامل۔نصب الرایة للمام الزیلع ج ١ ص ٣٧)'' خون بہنے سے وضو لازم ہوجاتاہے۔'' یہ اَور اِن کے علاوہ بہت سی روایات کے باوجود ڈاکٹر صاحب نے اپنی ناواقفیت کا اِظہار نہ کر کے مجتہدانہ دعویٰ کردیا کہ بظاہر خون سے وضو ٹوٹنے پرکوئی ثبوت نہیں ہے۔