ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2011 |
اكستان |
|
'' 366۔ سیشن کورٹ اَگر کسی شخص کوسزائے موت سنادے تو یہ مقدمہ ہائی کورٹ میں پیش کیاجائے گا اَور اُس وقت تک سزا پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا جب تک ہائی کورٹ سزائے موت کی توثیق نہ کردے۔ '' اِس سے موازنہ کی خاطر اگر ہم پاکستان کے قانون کو دیکھیں تو Criminal Procedure Code 1898 کی دفعہ 374 بھی یہی کچھ کہتی ہے : '' 374۔ سیشن کورٹ اگر کسی شخص کو سزائے موت سنادے تو یہ مقدمہ ہائی کورٹ میں پیش کیا جائے گا اَور اُس وقت تک سزا پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا جب تک ہائی کورٹ سزا ئے موت کی توثیق نہ کردے ۔ '' اِس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کے Criminal Procedure Code 1898 اَور بھارت کے Criminal Procedure Code 1973 of act 2 of 1974 میں لفظوں کا بھی فرق نہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کا قانون مقدمات کی سماعت کے عالمی معیار کے مطابق ہے۔ یہاں اَفسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ Code of Criminal Procedure آزادی کے بعد ہم نے نہیں بنایا بلکہ یہ پہلے اَنگریزوں کا بنایا ہوا ہے، کسی بھی ملزم یا مجرم کے لیے Criminal Procedure Code 1898 کی شق 411A کے تحت ہائی کورٹ میں اپیل کی گنجائش موجود ہے۔ اِس طرح کسی بھی ملزم یا مجرم یا کسی بھی متاثرہ فریق کو آئین ِپاکستان کے آرٹیکل 185 کی ذیلی شق 2 کے پیراگراف A کے تحت پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت میں اپیل کا حق بھی حاصل ہے۔ اِس شق کے تحت سپریم کورٹ میں ایسے تمام مقدمات میں اَپیل کی جاسکتی ہے جن میں ہائی کورٹ فیصلہ دے چکی ہو۔ اُوپر کی گئی بحث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان پینل کوڈ 1860 کی شق 295-C کے تحت توہین رسالت پر موت کی سزا اِسلام کے عین مطابق اَور قرآن و سنت سے اَخذ کردہ ہے اِس میں کسی تبدیلی یا ترمیم کی کوئی ضرورت نہیں۔ پیراگراف ( 1) میں بیان کردہ تمام ریفرنسز منفی اَور قانون کی غلط تشریح پر مبنی ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 9 کے مطابق کسی شخص کی زندگی اَور آزادی کو دُوسروں پر ترجیح حاصل نہیں اَور آئین کی شق (1) 25 کے تحت تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اَور یکساں طورپر قانونی تحفظ کے حقدار ہیں، لہٰذا 295-C کے