ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2011 |
اكستان |
تحت مقدمات سیشن کورٹ میں ہی قابلِ سماعت ہیں اِس کے لیے کسی خصوصی عدالت کی بھی ضرورت نہیں۔ ایک اَور معاملہ جس پر مختصر بات ضروری ہے وہ ہے ''پاکستان میں مذہب کی آزادی''۔ پاکستان کا آئین ہر کسی کے لیے آزادانہ طور پر کوئی بھی مذہب اِختیار کرنے اَور مذہبی اِدارے بنانے کو اُس کا بنیادی حق تسلیم کرتا ہے جو ملکی قانون کے دائرے کے اَندر ہو۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 20 کے پیراگراف A کے مطابق : ''اِس اَمر کی ضمانت دی جاتی ہے کہ ہر شہری مذہب اِختیار کرنے، اُس پر عمل کرنے اَور اُس کی تشہیر کرنے میں آزاد ہوگا۔ ' ' اَور پیراگراف B کے مطابق : ''ہر مذہب کے ہر فرقے کو اپنے مذہبی اِدارے بنانے چلانے کا حق ہوگا۔'' اَوریہ آزادی عالمی اُصولوں اَور قوانین کے عین مطابق ہے۔ مگر بہرحال یہ سب قانون اَمن ِعامہ اَور اَخلاقیات کے مطابق ہوگا۔ وزارتِ داخلہ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ قانونی راستہ اِختیار کرے۔ Executive کوکسی ایکشن کی ضرورت نہیں۔ مسمات آسیہ نورین کوCriminal Procedure Code 1898 کی شق 410 کے تحت پہلے ہی قانونی طورپر Remedy حاصل ہے۔ وہ ہائی کورٹ میں اَپیل کر کے عدالت کے فیصلہ اَور اپنی سزا کو چیلنج کر سکتی ہیں۔وزارتِ اَقلیتی اُمورکی جانب سے وزیر اعظم کو توہین ِرسالت قانون میں فوری طور پر تبدیلی کی درخواست بھی مبنی بر حقیقت نہیں، لہٰذا اِس پر کوئی ایکشن نہ لیاجائے۔ وزارتِ خارجہ کوBriefing Material کی ضرورت ہے۔ اِس جائزے کی ایک کاپی اَلگ سے وزارتِ خارجہ کو اِرسال کردی گئی ہے۔ تجویز کیا جاتا ہے کہ وزیر اعظم تمام ڈویژنوں اَور متعلقہ حلقوں کو ہدایت جاری کریں کہ وہ آئینی اَور قانونی معاملات میں وزارتِ قانون کی رائے لیے بغیر تبصرہ آرائی سے گریز کریں۔یہ 1973ء کے حکومت ِپاکستان کے رُولز آف بزنس کے تحت لازمی ہے۔ دستخط ڈاکٹر ظہیرالدین بابر وزیر قانون اِنصاف وپارلیمانی اُمور