ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2011 |
اكستان |
|
پنڈت کا اِسلام : اَبھی کوئی پنڈت ہے وہاں بمبئی کی طرف مسلمان ہوگیا پنڈت نہیں بلکہ مہاپنڈت بہت سے پنڈتوں کے اُوپر جوہوتا ہے اَور بڑے لوگوں سے اُس کے تعلقات ہیں جو صدر ہیں گورنر ہیں اَور فلاں ہیں صوبائی بھی اَور مرکزی بھی اَور پہلے وہ رہا ہے آر ایس ایس میں شامل جو مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے ،یہ اُن کی وہاں مسلح تنظمیں ہیں یا ٹرینڈ تنظمیں ہیںمسلمانوں کے خلاف جب کبھی کام کرنا پڑتا ہے تو وہ فساد میں قتل و غارت گری میں آگ لگانے میں آگے آگے ہوتے ہیں وہ اعلان بھی کرتا ہے اپنے اِسلام کا اِسلام کی خوبیاں بھی بیان کرتا ہے وہ یہ جانتا ہے کہ جو لوگ یہاں مسلمان ہیں اُن کے لیے بھی عرصہ حیات تنگ ہے پریشان ہیں، اُن کے لیے میدانِ کار بہت تنگ ہوا ہوا ہے اَور اُس کی گردن خطرے میں ہے اِس کے باوجود اِس دَور میں مسلمان ہو گیا ۔ تقسیم سے پہلے اِسلام کی طرف رغبت : تقسیم سے پہلے بڑے مسلمان ہوتے تھے لوگ ہاں تقسیم کے بعد جب جھگڑے ہوئے اَور قتل و غارت گری ہوئی اَور لاکھوں آدمی مارے گئے مسلمان بھی پندرہ سولہ لاکھ شہید ہوئے بہت بڑی تعداد شہید ہوئی اَور اُدھر بھی یہاں سے مارے ہوئے لٹے پِٹے ہوئے گئے ہیں اَور پھر وہاں کے عام لوگوں کے دماغوں میں یہ بیٹھ گیا کہ پاکستان ہے مسلمانوں کے لیے ۔اَب کون اُنہیں سمجھائے بہت سمجھاتے ہیں کہ بھئی سیکولر اِسٹیٹ ہے ہر مذہب والا رہ سکتا ہے حکام تک کے دماغوں میں دُوسری بات بیٹھی ہوئی ہے کہ اچھا ہے یہ جائیں تاکہ ہندوؤں کے ہاتھ آئیں یہ چیزیں۔ تو اِن حالات کی وجہ سے اِسلام قبول کرنے میں رُکاوٹ پیدا ہوگئی ورنہ جو حال وہاں پہلے تھا اِسلام کی طرف ہندوؤں کی رغبت کا وہ بہت زیادہ تھا۔ کہتے ہیں کہ کلکتہ کی مسجد میں جو وہاں شہر میں ایک مسجد ہے بڑی اَب اَوربڑی بڑی بن گئی ہوں شاید مساجد وہاں اُس وقت وہ بڑی مسجد تھی مسجد ِ ناخدا جیسے کہ شہر کی ایک مرکزی مسجد ہو معروف ویسے وہ ہے اُس میں مسلمان ہوتے رہتے تھے ہر دِن دو تین دو تین اَب ہفتہ میں ایک آدھ مسلمان ہوتا ہے وہاں تو اِس رَفتار میں بڑا فرق پڑا ہے اَور اِس لحاظ سے مسلمانوں کی تعداد بڑھ کے ہو سکتا تھا ہندوؤں کے برابر ہوجاتی یا ہو سکتا تھا زائد ہوجاتی۔ تو وہ آدمی جو وہاں مسلمان آج کے دَور میں ہوا ہے وہ مستحق ِ مبارک باد ہے ہمیں بھی اُسے مبارک باد