ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2011 |
اكستان |
|
اللہ سے) دِل لگ جائے تو ایسی سب فکریں آپ سے چھوٹ جائیں (لیکن طبعی طور پر اَولاد کے بگڑنے کارَنج ضرور ہوتا ہے اِس رنج پربھی اَجرو ثواب ملتا ہے) ۔ بچے اَگر ناجائز کام کے لیے ضد کریں : اگرسچ مُچ بچے ضد ہی کرتے ہوں تب بھی یہ عذر قابل ِقبول نہیں۔ دیکھو اَگر تمہارابچہ باغیوں میں شامل ہوکر گولا چھوڑنے لگے تو تم اُس کو روکو گے یانہیں؟ ضرور روکو گے، اگر نہ مانے گا تو زبردستی روکو گے اِسی طرح یہاں کیوں نہیں روکا جاتا۔ اگر تم خودمصیبت کو برا سمجھتے ہو تو بچوں کو اِس کی عادت کیوں ڈالتے ہو بھلا بچے اَگر ضدکر کے سانپ مانگنے لگیں توکیا دے دو گے؟ پھر جس کو خدا اَور رسول نے مضر (گناہ) فرمایا ہے کیا وجہ ہے کہ اِس کی عادت ڈالی جاتی ہے۔معلوم ہوا کہ خدا و رسول کے فرمان کی عظمت نہیں۔ بچوں کو آتش بازی کے لیے پیسے دینا شرعًا حرام ہے۔ تم دینے والے کون ہوتے ہو، یہ مال تمہارا کہاں ہے سب خداہی کی مِلک ہے تم محض خزانچی ہوہمیں یہ اِجازت نہیں کہ اِس کو جیسے چاہیں خرچ کریں، خدا کا مال ہے اِس کے متعلق قیامت میں سوال ہوگا کہ تم نے کہاں خرچ کیا ؟پس بچوں کو آتش بازی اَور ناجائز کام کے لیے پیسے ہر گز مت دو اَور ضد کرنے پر مارو۔ ناجائز کھیل تماشا کے پاس بھی اُن کو مت کھڑا ہونے دو۔ ایک بچہ والدین سے ضد کرنے لگا کہ میں وہ چیز کھاؤں گا وہ بھی لا کر رکھ دی ،جب ساری ضدیں پوری ہوگئیں تو کہنے لگا یہ چاند کیوں نکل رہا ہے اِس کو چھپاؤ ۔والدین یہاں عاجز ہوگئے اَور دو چار طمانچہ ما ر کر اُسے خاموش کیا۔ ایک عبرتناک واقعہ : صاحبو! بزرگوں نے توبچوں کو ایسی ایسی عادت ڈالی ہے کہ جس سے اُن کو دو لتیں مل گئیں اَور تم ایسی عادتیں ڈالتے ہو جس سے دُنیا اَور دین دونوں تباہ ہوں۔ ایک بزرگ کی حکایت ہے کہ اُن کا ایک لڑکا تھا بالکل کمسن (نوعمر) اُنہوں نے بیوی سے شروع ہی سے کہہ رکھاتھا کہ اگر یہ کوئی چیز مانگے تو اپنے ہاتھ سے مت دو بلکہ اُس کی ضرورت کی چیزیں ایک جگہ اُس سے پوشیدہ رکھ دو، جب یہ کوئی چیز مانگے تو اُس سے کہہ دو کہ وہاں جا کر اللہ میاں سے مانگو اَور ہاتھ ڈال کر