ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2011 |
اكستان |
|
ہے تواُس کو چاہیے کہ وہ خدا سے یہ دُعا کرے کہ اَیسا نہ ہو کہ وہ میرا اِستعمال کرنا چھوڑ دے بلکہ یہ ہو کہ وہ مجھے آخر تک توفیق دے کہ میں اُس کے دین کے لیے اِستعمال ہوتا رہوں صحیح دین کے لیے۔ تو جو لوگ ایسے ماحول میں کام کریں کہ جہاں ٹکرائو ہو وہ بڑا مشکل ہے اَب روزے سارے گھر والے اگررکھیں تو بالکل آسان ہو جاتا ہے کیونکہ سارے ہی اُٹھتے ہیں سارے ہی روزے رکھتے ہیں کوئی بات ہی نہیں ماحول کا ماحول روزہ دار ہے لیکن اگر گھر میں فقط ایک آدمی روزہ رکھ رہا ہے باقی سارے اُسے ٹوکتے ہیں روکتے ہیں، کچھ کہتے ہیں کبھی کچھ کہہ دیتے ہیں تو اَب اُس کو اِس سے جو مشقت دماغی پیدا ہوگی اَور تکلیف پہنچے گی وہ بھی تو ایسے ہی ہے جیسے کسی کے بدن کو چوٹ لگ گئی ہو اَور اُسے تکلیف پہنچ رہی ہو اَور مرہم پٹی کی جارہی ہو بلکہ شاعروں نے تو یہ بھی کہا ہے جَرَاحَاتُ السِّنَانِ لَہَا الْتِیَامُ وَلَا یَلْتَامُ مَا جَرَحَ اللِّسَانُ ''جو بھالے سے نیزے سے زخم لگ جائیں وہ تو جُڑجاتے ہیںاَور جو زبان سے زخم لگے وہ جُڑتا نہیں۔'' وہ ٹھیک ہونے میں نہیں آتا۔ تو زبان کی تکالیف جو وہ لوگ پہنچاتے ہیں سب کے سب اُس کے لیے باعث ِ اَجر بن رہے ہیں۔ حضرت مدنی کا دھوبی ،مخالفت کی برداشت : حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ کے عقیدت مند بکثرت تھے وہ کسی کو بُرا نہیں کہنے دیتے تھے لڑپڑتے تھے اَور ایک دفعہ ایک آدمی نے کچھ کہہ دیے بُرے کلمات حضرت کے حق میں، طلباء نے وہاں سٹرائیک کردی مظاہرے کیے مطالبہ کیا کہ اِسے نکالا جائے اَور حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ نہیں غلط بات ہے تو اُنہوں نے اُس میں ایک جملہ یہ فرمایا جو میں نقل کرنا چاہتا ہوں تو فرمایا : '' وہ میرا دھوبی ہے وہ جو میری غیرموجودگی میں میری بُرائی کرتا ہے وہ میرے جو گناہ ہیں اُنہیں دھورہا ہے۔'' جب غیبت کرے گا کوئی آدمی کسی کی یا اِتہام لگائے گا تو ظاہر ہے کہ اُس آدمی کو حقیقتًا خدا کے نزدیک فائدہ پہنچ رہا ہے تو اُسے فرمایا کہ ''وہ میرا دھوبی ہے'' اَور تم یہ چاہتے ہو کہ میرے گناہ نہ دھوئے کوئی میرے کپڑے میلے ہی رہیں تو وہ میرا دھوبی ہے تم چاہتے ہو کہ میرا دھوبی نہ رہے اُس کو ہٹنے نہیں دیا وہ دارُالاہتمام میں تھے................ منشی ................