ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2011 |
اكستان |
|
محرومی کا ذریعہ ہے۔ مسلمان کا اِمتیاز : مسلمان یک چشم نہیں ہے کہ اُس کو صرف ایک عالَم اَور اُسی کی کامیابی نظر آسکتی ہو اُسی کی فکر اُس کی کامیابی و ناکامی کا سرچشمہ ہو۔ وہ دو آنکھیں رکھتاہے اَور ساتوں آسمانوں کو چیر کر اُوپر جانے والی نظر رکھتاہے بلکہ وہی عالَم اُس کا منتہائے نظر ہے ۔یہ عالَم تو ایک ایکسیڈنٹ ایک ٹھوکر کھانے ایک ہچکی اَور ہارٹ فیل پر ختم ہوجاتاہے لیکن وہ عالَم وہ ہے جس کی ناکامی اِنتہائی سخت اَور بہت دیرپاتکلیفوں اَور پریشانیوں کا سبب اَور کامیابی ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی ہے۔ صحیح نظراِس سے نیچے نہیں رہ سکتی۔ اِس کے لیے بھی ایک سیزن ہے بلکہ سیزن دَر سیزن ہے۔ عقل وہوش کا کام یہ ہے کہ وہ بہت پہلے سے اِس کے لیے تمام ذرائع و اَسباب اَور تمام ضروریات فراہم کرے، ہوشیاری اَور وقت شناسی کے ساتھ تندہی سے کام کرے ورنہ عقل درست ہے توتمام سال سر پکڑ کے روناپڑے گا اَور اگر اِحساس ہی باطل ہو جائے تو لاعلاج مرض ہے۔ اِنسانیت کامعیار : اِنسان فرشتوں اَور جانوروں کے درمیان ایک مخلوق ہے نہ بالکل فرشتوں کی طرح کہ اِس میں معصیت کا مادّہ ہی نہ ہو اَور عبادت اُس کی سرشت ہو کہ بے اِختیار برابر صادِر ہوتی رہے اَور نہ بالکل جانور کہ اِس پر کوئی قد غن نہ ہو، تمام قوائے ظاہری وباطنی بے مہار ہوں بلکہ یہ خیرو شر دونوں کا مجموعہ ہے اِس کی زندگی ایک اِمتحان گاہ ہے کہ خیرو شر دونوں اِختیاری ہیں۔ اَب اِمتحان ہے کہ اپنے اِختیار و قدرت سے عبادتوں میں منہمک رہتااَور معصیت سے بچ بچ کر کام کرتاہے یا نہیں۔ اِسی اِمتحان میں فیل پاس ہونا اُس کی زندگی کا مقصد ہے، یہی نہیں اِس سے بھی اُونچا ایک درجہ دیا گیا ہے کہ اِمتحان بھی سخت ترین ہے، بدی کے دو پہلوان اِس پر مسلّط ہیں (ایک اَندر کا نفس ایک باہر کا شیطان) اِن دونوں کو زیر کرکے نیکی و عبادت کرنا اَور بدیوںسے بچ نکلنا اُس کا فریضہ ہے گویا اُس کی زندگی ہر آن ایک میدانِ جنگ ہے اَور ہر وقت فتح و شکست اُس کے لیے مقرر ہے اگر فتح مندہے توفرشتوں سے بھی اَفضل اَور اگر شکست خوردہ ہے تو اِبلیس سے بھی بدتر ہے۔