ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2011 |
اكستان |
|
کوئی شخص یاملزم خود قانونی دفاع یا اپنی پسند کے قانونی ماہر سے قانونی معاونت کے حق سے اِنکار بھی نہیں کرسکتا۔ آئین کی دفعہ 10کی شق 1 کے مطابق کسی بھی ملزم کی سزائے موت پر اُس وقت تک عمل درآمد نہیں ہو سکتا جب تک ہائی کورٹ کا ڈویژنل بنچ اِس کی توثیق نہ کردے۔ Criminal Procedure Code 1898کے Section 374 میںیہ اَمر وضاحت کے ساتھ موجود ہے : ''374۔جب سیشن کورٹ کسی شخص کو سزائے موت سنادے تو یہ مقدمہ ہائی کورٹ میں پیش کیا جائے گا اَور اُس وقت تک سزا پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا جب تک ہائی کورٹ سزائے موت کی توثیق نہ کردے۔ '' اگرکسی ملزم کو سیشن جج یا اَیڈیشنل سیشن جج کی عدالت سے سزا ہوجائے تو وہCriminal Procedure Code 1898 کے سیکشن410کے تحت ہائی کورٹ میں اپیل کر سکتا ہے۔ کسی ملزم کی اِس سطح پر بریت کی صورت میں صوبائی حکومت پبلک پر اسیکیوٹر کو Criminal Procedure Code 1898کے سیکشن 417 کے تحت ہائی کورٹ میں اپیل کی ہدایت کرسکتی ہے، ہائی کورٹ کے سوا کسی بھی عدالت سے بریت کا حکم جاری ہونے پر اِس سے متاثرہ فریق سیکشن 417 کی ذیلی شق 2A کے تحت ہائی کورٹ میں اپیل کرسکتا ہے۔ مقدمہ جو ہائی کورٹ میں سیکشن 374 کے تحت آیا ہو۔Criminal Procedure Code 1898 کے سیکشن 376 کے تحت ہائی کورٹ اُس میں سزا کی توثیق کرسکتی ہے یا کوئی نئی سزا دے سکتی ہے یا اِسی اِلزام میں یا کسی دُوسرے اِلزام میں دوبارہ سماعت کا حکم دے سکتی ہے۔ یہاں اِس اَمر کا جائزہ بھی لینا ضروری ہے کہ بعض لوگ پروپیگنڈے کے زیر اَثر ایک غلط تصویر پیش کرتے ہیں کہ پاکستان کا Procedural قانون اِنسانی حقوق کے عالمی معیار کے مطابق نہیں یاپھر اُنہیں عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ یہ تأثر سراسر بے بنیاد اَور غلط ہے۔ اِس حوالے سے قریب ترین مثال بھارت کی پیش کی جاسکتی ہے جہاں Code of Criminal 1974 کے Chapter XXVIII میں بھی سزائے موت کے حوالے سے یہی طریقہ کار دِیا گیا ہے۔