ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2011 |
اكستان |
|
دینی چاہیے اَور ہم بھی دُعا کرتے ہیں کہ خدا اِستقامت دے وہ ساری باتیں کھل کر لکھتا ہے کیونکہ لوگ اُس کی تعظیم کے تو عادی ہیں جو تعظیم کے عادی ہوجاتے ہیں وہ ڈانواں ڈول ہوجاتے ہیں مخالف نہیں ہوتے تو ڈانواں ڈول ہوگئے ہیں اُس کے معتقد ضرور کہ اَب اِس سے عقیدت رکھیں یا نہ رکھیں لیکن اُس کی دُشمنی پر اُتر آئیں ایسی صورت نہیں ہوئی لیکن ہو سکتا ہے کہ کوئی اُسے مار بھی دے یہ اَگلی باتیں جو زیادہ کیے جا رہا ہے دُوسروں پر اِس کا اَثر پڑ رہا ہے تو وہ سوچیں کہ چلو اِسے صاف کرو ۔تو اُس نے اپنی جان خطرے میں ڈال دی اَور دیکھا اُس نے کیا ہے ! فقط تعلیمات دیکھی ہیں اِسلام کی اَور کوئی اُس نے مظہر بھی نہیں دیکھا وہ کہیں عرب میں بھی نہیں گیا کہ اُس نے یہ دیکھ لیا ہو کہ یہاں ٹوٹا پھوٹا اِسلامی قانون کا جو حال ہے اُس میں بڑا عدل اَور بڑا اِنصاف ہے وہاں جانے والے بھی متاثر ہوجاتے ہیں مجمع کو دیکھ کر اُن کی تنظیم کو دیکھ کر ،ٹی وی پر اَب آنے لگے ہیں کعبة اللہ وغیرہ میںنمازوں کے مناظر لیکن یہ ٹی وی پر دیکھنا اَور سچ مچ دیکھنے میں بڑا فرق ہے سچ مچ دیکھنے میں جو اَثر ہوتا ہے وہ پُرہیبت ہوتا ہے سب رکوع میں ہوں سب سجدہ میں ہوں یا سب قیام میں ہوں تمام حالات کا بڑا اَثر پڑتا ہے وہ منظر عجیب ہے اَور اُس جگہ کی بھی برکات اُس وقت شامل ہوتی ہیں جب آدمی وہاں ہو ٹی وی پر دیکھنے میں تو وہ بات ہی نہیں لیکن وہاں رہے کچھ وہاں اِسلام کے قانون کو بھی دیکھے اَگر عربی جانتا ہو تو وہاں کے لوگوں کے حالات کو بھی دیکھے اُن کے جھوٹ اَور سچ کو بھی دیکھے ۔ صبح چار بجے قتل کیا اَور دس بجے قاتلوں کے سر قلم : ابھی وہ قریشی صاحب آئے ہوئے تھے بتارہے تھے کہ ایک عورت نے اپنے شوہر کو مار دِیا رات کو مارا کوئی چار بجے رِیوالور یاپستول سے اُس کو اُنہوں نے پکڑ لیا صبح سات بجے آٹھ بجے پیش ہوئے قاضی نے پوچھاکہ یہ تیرے پاس ریوالور آیا کہاں سے اُس نے نام لے لیا، اَچھا چلانا کس سے سیکھا ،اُس کا نام لے لیا، جس نے چلاناسکھایا تھا اُس کو بُلایا ،آیا کہاں سے حاصل کہاں سے کیا،فلاں آدمی کے ذریعہ یا فلاں دُکان سے اُن کو بھی بلالیا۔ اَگر وہ کہہ دیتے کہ یہ اِس نے چار پانچ سال پہلے لیا ہے وہ سکھانے والا کہہ دیتا کہ میں تو سکول میں جاتا تھا ٹریننگ دیتا تھا وہاں میں نے ٹریننگ دی تھی تو کوئی حرج نہیں تھالیکن اِسلامی قوانین میں اِتنا موقع ہی نہیں دیتے (مجرم کو)کہ کوئی جھوٹ بات بناسکے اَور جو مجر م ضمیر ہوتا ہے وہ جھوٹ بات جلدی سے بنانے کا متحمل نہیں ہوتا اُس میں ٹکراؤ کی طاقت نہیں ہوتی فورًا اَگر پکڑاجائے تو وہ جھوٹ بول کر اپنے آپ کو