ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2011 |
اكستان |
|
اِس وقت سارا مال و اَولاد عورتوں کے قبضہ میں ہم نے کردیا ہے پھر دیکھ لیجیے کہ روپیہ کس طرح بے موقع صَرف ہوتا ہے اَور بچوں کی صحت خراب اَور اَخلاق تباہ ہورہے ہیں۔ عورتیں بچوں کو جو چاہیں کھلاتی پلاتی ہیں جس سے اُن کی زندگی بیماری میں کٹتی ہے۔ محبت و پیار حدسے زیادہ کرتی ہیں جس سے لڑکے شوخ ہو جاتے ہیں اِس لیے اپنے مال و اَولاد کو اپنے قبضہ میں رکھنا چاہیے عورتوں کو حاکم بنادینا سخت تنزلی کا باعث ہے جس کو جناب سرکارِ دو عالم ۖ پہلے سے فرماگئے کہ وہ قوم کبھی کامیاب نہ ہوگی جس کی حاکم عورت ہو۔ بچوں کی شوخ مزاجی اَور ایک حکایت : بچوں کی شوخ اعتدال (اَورتہذیب) کے خلاف نہیں کیونکہ بچپن کا مقتضی یہی ہے کہ بچہ بچوں کی طرح شوخ ہو باپ دَادا کی طرح متین (اَور سنجیدہ) نہ ہو۔ حضرت مرزا مظہر جانِ جاناں رحمة اللہ علیہ نے ایک مرید سے فرمایا کہ تم اپنے بچوں کو ہمارے پاس نہیں لاتے وہ بیچارہ کچھ بہانے کردیتا کیونکہ اُسے اَندیشہ تھا کہ مرزا صاحب بہت نازک مزاج ہیں اَور بچے شوخ مزاج ہوتے ہیں ایسا نہ ہو کہ اُن کی کسی حرکت سے آپ کو تکلیف پہنچے، جب آپ نے کئی بار تقاضا کیا تو تین چار دِن ٹال کر وہ اپنے بچوں کو لائے اَور اِس مدت میں اُن کو خوب تعلیم دی کہ اِس طرح سر جھکاکر بیٹھنا یوں اَدب کرنا مجلس میں اِدھر اُدھر نہ دیکھنا۔ بچوں نے اِس طرح کیا کہ سلام کر کے بت کی طرح خاموش بیٹھ گئے نہ نگاہ اُوپراُٹھائی نہ کوئی بات کی۔ اَب مرزا صاحب اُن کو کھولنا چاہتے ہیں تو کھلتے نہیں۔ مرزا صاحب نے مرید سے فرمایا کہ تم آج بھی اپنے بچوں کو نہ لائے۔ اُس نے عرض کیا حضرت یہ حاضر تو ہیں۔ فرمایا یہ بچے ہیں؟ یہ تو تمہارے بھی اَبا ہیں، بچے تو کھیلتے ہیں کودتے ہیں شوخیاں کرتے ہیں ،کوئی ہماری ٹوپی اُتارتا کوئی کمر پرسوارہوتا بچے تو ایسے ہوتے ہیںاَور یہ تو تمہارے اَبّا بن کر بیٹھ گئے۔