ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2011 |
اكستان |
|
توہین ِرسالت کا یہ قانون پہلے ہی پارلیمنٹ کے اَندر اَور اُس کے باہر پارلیمانی فور مز پر زیر بحث لایا جا چکا ہے۔ یہاں تک کہ ایک آئینی عدالت وفاقی شرعی عدالت اِس قانون کے تمام پہلوؤں کا قرآن و سنت کی روشنی میں بغور جائزہ لے چکی ہے۔ ''محمد اِسماعیل قریشی بنام پاکستان بذریعہ سیکرٹری قانون و پارلیمانی اَفئیرز پاکستان'' PLD 1991 FSC Page10 کے عنوان سے ایک کیس میں وفاقی شرعی عدالت نے اِس قانون کا قرآن و سنت کی روشنی میں تفصیل سے جائزہ لیااَور قرار دیا کہ توہین ِرسالت کیس میں سزائے موت کے متبادل عمر قید کی سزا اِسلامی قوانین کے خلاف ہے، اِس فیصلہ کے کچھ حصے پیش ِخدمت ہیں۔ سب و شتم اَور اذٰی کے اِلفاظ قرآن و سنت کے مطابق رسول اللہ ۖ کی توہین کے معنوں میں اِستعمال ہوئے ہیں۔ ''سب'' کے معنی نقصان پہنچانے ، توہین کرنے، ہتک ِعزت اَور جذبات کو مجروج کرنے کے ہیں۔(Arabic English Lexicon E.W.Lane,Book-1 Part 1 Page 44) جبکہ ''شتم '' کے معنی گالی گلوچ کرنا اَور وقار مجروح کرنا ہے۔ (PLD 1991 FSC Page26 ) تمام ماہرین ِ قانون اِس بات پر متفق ہیں کہ یہ اِلفاظ تمام اَنبیائے کرام کے متعلق ہیں اَور اگر کوئی شخص کسی بھی نبی کی کسی بھی اَنداز میں توہین کرتا ہے تو اُس کی سزا موت ہوگی۔ اِس تمام بحث سے ہم یہ نتیجہ اَخذ کرتے ہیں کہ توہین ِرسالت کی جو سزا پاکستان پینل کوڈ 1860 ء میں درج ہے وہ سزا موت اَور عمر قید ہے جو قرآن و سنت سے مطابقت نہیں رکھتی کیونکہ قرآن و سنت میں توہین ِرسالت کی سزا صرف موت ہے عمر قید نہیں۔ اِس لیے عمر قید کا لفظ ختم کردیناچاہیے۔ (PLD 1991 FSC Page10 ) پاکستان میں موثر عدالتی نظام موجودہے جس کے تحت ایسے تمام مقدمات جن میں سزائے موت ہے وہ سیشن کورٹ میں Triable ہیں۔ اِن میں Chapter XXIIA Of Criminal Procedure Code 1898 اَور قانونِ شہادت آرڈر 1984ء منصفانہ سماعت کی ضمانت ہے۔ اِس قانونی ضمانت سے ہٹ کر بھی اَٹھارویں ترمیم کے ذریعے آئین کے Part II میں ہر ملزم کے لیے Fair Trial بنیادی حق قراردے دیا گیا ہے۔ آئین کے مطابق اِس اَمر کو یقینی بنایا جائے گاکہ کسی بھی شہری پر لگنے والے مجرمانہ اِلزام پر اُسے Due Process کے ساتھ Fair Trial کا حق ملے۔ اِس نظامِ عدل میں ہر ملزم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قانونی معاونت حاصل کرے اَور اپنا دِفاع کرے۔