ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2011 |
اكستان |
|
ناقص شریعت بل کے لیے مسلمان ملک میں دَلیل کے طور پر اُٹھاکر لے آئے ہیں لاحول ولاقوة اِلا باللّٰہ) اَور اَبھی میں یہ مضمون لکھ ہی رہا تھا کہ مئی کا میثاق موصول ہوا اُس میں بھی عجیب باتیں لکھی ہیں۔ اِس میں مقبول الرحیم مفتی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت شیخ الہند سے لے کر اَب تک ہماری جمعیت نے نفاذِ فقہ حنفی کو اپنا مؤقف نہیں بنایا۔ علامہ عثمانی نے بائیس نکات کو مؤقف ٹھہرایا تھا اُنہوں نے فقہ حنفی کو مؤقف نہیں بتایا تو آپ لوگ کیوں اِسے اپنا مؤقف بنارہے ہیں لیکن یہ دلیل بے وزن ہے۔ اِس کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ علامہ عثمانی نے بائیس نکات کو کیوں مؤقف بنایا تھا جبکہ اُن کے اَسلاف نے بائیس نکات کی کبھی بات نہیں کی تھی۔ اَصل بات تو یہ ہے کہ علامہ عثمانی نے یہ تمہید کی تھی یہ نکات شریعت کے نفاذ کے لیے ہی تجویز کیے تھے اَور نفاذ قانونِ شریعت اِس کے سوا کسی صورت نہیں ہوسکتا کہ عدلیہ کو مرتب شدہ شرعی احکام کے تراجم مہیا کردِیے جائیں اَور مرتب شدہ اَحکام فقہ کے سوا اَور ہیں ہی کہاں، اِس لیے آج کی صورت ِ حال میں فقہ حنفی کے نفاذ کا اِنکار شریعت کے نفاذ کے اِنکار کے مترادف ہے۔ نیز یہ بھی غور کریں کہ علامہ عثمانی جن کی ساری زندگی قرآن و حدیث کی خدمت میں گزری پاکستان بننے کے بعد اپنے دینی جذبات بروئے کار نہیں لاسکے اِس عظیم صدمہ پر اُن کے آنسو بہتے دیکھنے والے تو آج تک زندہ ہیں۔ اگرچہ مولانا عِرض محمد اَور مولانا عبد الواحد صاحب خطیب گوجرانوالہ کی وفات ہوگئی جو اُن کے براہِ راست شاگرد تھے مگر مولانا عبد الواحد صاحب مدظلہ' کی طرح اِن حضرات کے ساتھ والے علماء بفضلہ تعالیٰ موجود ہیں۔ غرض علماء کی خواہش و اُمنگ اَور اُجڑکر آنے والے تباہ حال مسلمان عوام کی دِلی تمنا تو یہ تھی کہ پاکستان میں اِسلامی قوانین ہوں گے لیکن خواص کے اَفکار اَور ہی تھے مذہب سے اُن کا کوئی تعلق نہیں تھا چنانچہ آزادی کے بعد حکومتی ڈھانچہ معرض ِ وجود میں آیا وہ سیکولر یا لامذہب حکومت کا تھا۔ چیف جسٹس کار نیلیس (عیسائی) وزیر قانون جو گندرناتھ منڈل (ہندو) وزیرخارجہ ظفر اللہ خاں (قادیانی) اَفواج کے سب سربراہ اَنگریز (عیسائی یا لامذہب) جنرل میسروی، جنرل گریسی، فضائیہ کے آرایچ ر ے، بحریہ کے رئیر اَیڈمرل جیفورڈ (سب اَنگریز) پنجاب کا گورنر اَنگریز سرفرانسس موڈی، مشرقی پاکستان کا اَنگریز گورنر فریڈراک بورن، صوبہ سرحد میں کنگھم اَور ڈنڈاس (اَنگریز اَور عیسائی گورنر رہے)۔ علامہ کا تو یہ حال ہوا ہے کہ ع بس خون ٹپک پڑا نگہ اِنتظار سے