ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2011 |
اكستان |
|
بالآخر کچھ تبدیلی آئی۔ لیاقت علی خاں کے دَور میں مولانا کا کچھ بس چلا تو شیرازہ جمع کیا اَور علماء کو ٢٢ نکات پر متفق کیا۔ اِس کے کچھ ہی عرصہ بعد ١٣ دسمبر ١٩٤٩ء کو علامہ صاحب وفات پاگئے، رحمہ اللہ تعالیٰ۔ اگر وہ زندہ رہتے تو قانونِ اِسلامی کے نفاذ کے لیے اِس کے سوا وہ اَور کیا کرتے کہ قانون کے لیے حنفی کتب کا ترجمہ کرانے اَور عدلیہ کو اِس پر چلانے کی کوشش کرتے۔ قابلِ عمل شکل ہی یہ ہے بس جواُن کا اَگلا قدم ہوتا وہ ہم اُٹھارہے ہیں۔ نیز اِن ٢٢ نکات میں اَور نفاذِ فقہ حنفی و فقہ جعفری اَور غیر مقلدوں کے لیے اُن کے عالِم کو اُن کا جج مان لینے میں تعارض کیا ہے بلکہ آپ کا اِس اَگلے قدم سے روکنا نفاذِ اِسلام کو روکنا ہے بلکہ بالفاظِ دیگر ٢٢ نکات سے اِنحراف بھی۔ مینارِپاکستان پر یہ اعلان تو اَب ہوا ہے میں تو ذاتی طور پر اِس کے لیے ١٩٧٧ء سے کوشاں ہوں حضرت مفتی محمود صاحب سے عرض کرتا رہا ہوں۔ میثاق کے اِسی پرچہ میں مقبول الرحیم صاحب مفتی نے ڈاکٹر اِسرار صاحب کے ٣ اپریل کے جمعہ کے خطاب کے یہ جملے نقل کیے ہیں : ''قرآن و سنت سے براہِ راست اِستنباط کرتے ہوئے آج کے مسائل کا حل تلاش کرنا بھی اِسی طرح درُست ہے جس طرح کسی فقہی مسلک کی فقہ کو نافذ کرنا درُست ہے۔'' اگر ڈاکٹر صاحب کے سامنے آج کے حالات میں ایسے حل طلب مسائل ہیں جن کا حل فقہ میں موجود نہیں تو وہ اُن کی نشاندہی کریں۔ جابجا مدارس میں علماء اَور مفتی حضرات موجود ہیں اُن سے رُجوع فرمائیں مجھے بھی بتلائیں اَور اگر خدانخواستہ ڈاکٹر صاحب کا مقصد یہ ہے کہ فقہ حنفی کے نفاذ کا نام نہ لیا جائے اَور ہر مسئلہ میں چاہے وہ پہلے سے حل شدہ موجود ہو اَب بِلاوجہ بھی اِجتہاد کی اِجازت کو عام کیا جائے تو یہ غلط ہے اَور ضلالت ہے میں اِس کا شدید مخالف ہوں یہ دین کے لیے سم ِ قاتل ہے یہ اَندازِ فکر اَور سوچ برخود غلط لوگوں ہی کی ہوسکتی ہے۔ دارُالعلوم دیوبند میں مولانا مفتی عزیر الرحمن صاحب رحمہ اللہ ہی کے حل کردہ ٣٦ ہزار فتوے ہیں یہ دارُالعلوم کے پہلے مفتی تھے اِن کے بعد سے اَب تک کی تعداد معلوم نہیں۔ مولانا مفتی محمود صاحب کے حل کردہ مسائل کے تیس کے قریب رجسٹر قاسم العلوم ملتان میں موجود ہیں۔ اِن سب کارناموں پر اَنگریزی قانون نے پردہ ڈال رکھا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے جو بات کی ہے وہ اپنے اِرد گرد لوگوں سے متاثر ہوکر