ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2011 |
اكستان |
|
حَدَّثَنِیْ مِسْعَرُ بْنُ کِدَامٍ عَنْ مَّحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ عَنْ جَابِرٍ قَالَ بِعْتُ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَاقَةً وَشَرَطَ لِیْ حِمْلَانَھَا اِلَی الْمَدِیْنَةِ ۔ ''مجھے مِسعر بن کدام نے محارِب بن دِثار سے اُنہوں نے حضرت جابر سے یہ روایت بیان کی ہے کہ میں نے (سفر میں) جنابِ رسول اللہ ۖ کے ہاتھ اُونٹنی فروخت کی تھی اَور آپ نے اِس پر مدینہ منورہ تک سفر کی شرط منظور فرمائی تھی۔'' لہٰذا بیع بھی جائز اَور شرط بھی جائز ہے۔(معرفة علوم الحدیث ص ١٢٨) اِسی طرح ایک اَور مثال بھی ملاحظہ فرمالیں جو بخاری شریف سے نقل کررہا ہوں۔ یہی ابن ِ شبرمہ (قاضی کوفہ) فرماتے ہیں کہ مجھ سے اَبوالزِّناد (قاضی مدینہ منورہ و اُستاد اِمام مالک) نے اِس مسئلہ میں گفتگو کی کہ مدعی کے پاس ایک ہی گواہ ہو تو اُس سے دُوسرے گواہ کے نہ ملنے کی صورت میں بجائے گواہ کے قسم کھلوائی جائے (اَور یہی اِن کا اَور اہلِ مدینہ کا مسلک تھا) میں نے اُنہیں جواب دیا کہ قرآنِ پاک میں مدعی کے پاس دو گواہ نہ ہونے کی صورت میں یہ حکم ہے کہ پھر دو عورتیں ہوں اَور طویل عبارت اِختیار فرمائی گئی :فَرَجُل وَّامْرَأَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّھَدَآئِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰھُمَا فَتُذَکِّرَ اِحْدٰھُمَا الْاُخْرٰی ۔ (سُورة بقرہ آیت ٢٨٢)(اگر ایک گواہ اَور مدعی کی قسم کافی ہوسکتے تو قرآنِ پاک میں مختصر کلمات میں اِرشاد ہوتا فَرَجُل وَیَمِیْن )۔(بخاری ج ١ ص ٣٦٦ ) غرض اِس طرح علماء ِبلاد تک میں بھی سب مسائل پر گفتگو ہوچکی ہے اَب اگر کوئی کمیٹی یا بورڈ یہی کام شروع کرے گا تو تیرہ سو سال پیچھے لوٹنے کے مترادف ہوگا اَور کم علمی اَور تقویٰ کے فقدان کی وجہ سے دین کا کھیل بنانا ہوگا۔ خیرالقرون میں مذکورہ بالا طریق پر نہایت بے نفسی کے ساتھ قرآنِ پاک اَور اَحادیث کی روشنی میں علماء میں بہت بحث و تمحیص ہوتی رہی ہے بہت سے مسائل ایسے تھے کہ جن میں ایک شہر کے علماء کا ایک مؤقف تھا اَور دُوسرے شہر کے علماء کا دُوسرا مؤقف تھا مثلاً وہ مسائل کہ جن میں علماء ِمدینہ اَور علمائِ کوفہ کا اِختلاف تھا (کیونکہ رفتہ رفتہ ایک ایک شہر کے علماء آپس میں گفتگو کرکے ایک ایک مؤقف پر متفق ہوتے چلے