ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2010 |
اكستان |
|
(١)قتل کی سزا: قصاص یا دیت۔(٢) چوری کی سزا : ہاتھ کاٹنا۔ (٣)ڈکیتی کی سزا : قتل، سولی یا ہاتھ پیر کاٹنا۔ (٤) زنا کی سزا : شادی شدہ ہوتو سنگسار کرنا ورنہ سو کوڑے مارنا۔(٥) کسی پر زنا کی تہمت کی سزا : ٨٠کوڑے۔ (٦) شراب کی سزا : ٨٠کوڑے۔ (٧)اِرتداد کی سزا : قتل۔ اِسلامی حکومت میں اِن میں سے کسی جرم کے ثابت ہونے کے بعد کسی بھی شخص کو حتی کہ اَمیرالمؤمنین کو بھی اِس سزا میں تخفیف کرنے کا اپنی طرف سے حق حاصل نہیں ہے۔ اِسلامی حکومت کا یہ شرعی فرض بنتا ہے کہ وہ جرائم کی روک تھام کے لیے مقرر کردہ شرعی حدود کو جاری کرے اگر کوئی بااِختیار مسلم حکومت اِس پر عمل نہیں کرتی تو وہ عنداللہ وعندالناس اپنی کوتاہی پر جواب دہ ہے۔ اِس لیے کہ سزاؤں کے احکامات محض فقہی مسئلے نہیں بلکہ قرآن وسنت کی متواتر قطعی نصوص سے ثابت شدہ ہیں۔ کسی بھی فرد یا حکومت کواِن سے صرفِ نظرکرنے کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ البتہ مذکورہ جرائم کے علاوہ اِس سے کم تر درجہ کے جرائم کی سزا کا اِختیار حاکم ِوقت کو د یا گیاہے کہ وہ حالات کو دیکھ کر اپنی منشاء کے مطابق کوئی بھی سزا تجویز کرسکتاہے۔ اِسلامی حدود کا یہ نظام تجرباتی طور پر نہایت کامیاب ثابت ہوا ہے کیونکہ اِس نظام کے ذریعہ جرائم کا معیار غیرمعمولی طریقہ پر کم سے کم ہو جاتاہے۔ آج بھی جن ممالک میں اِس کا رواج ہے وہاں جرائم کی شرح ساری دُنیا سے کم ریکارڈکی جاتی ہے۔ مگر مغربی دُنیا کو یہ امن وامان کی فضاء قطعاً پسند نہیں، وہ ایک طرف اِنسانی حقوق کے تحفظ کا راگ اَلاپتی ہے اَور دُوسری طرف اِسلامی نظامِ حدود پر بے جا تنقید کرکے دُنیا کے چَھٹے ہوئے مجرموں کی پیٹھ تھپتھپاتی ہے۔ آج اِسلام کی مقررکردہ سزاؤں کی شدت پر تو خوب ٹسوے بہائے جاتے ہیں اَور مبالغہ آمیز ی کے ساتھ اُن کی قساوت کو اُجاگر کرکے اِسلام کو مطعون کیا جاتاہے مگر یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ ایک کوسزا دینے سے سینکڑوں ہزاروں بے قصوروں کو کتنی راحت ملتی ہے۔ اَور ایک مجرم کو کیفرِ کردار تک پہنچانے سے کتنے جرائم پیشہ اَفراد کی ہمتیں پست کرنے کا سبب بن جاتا ہے لیکن بات اصل میں یہ ہے کہ جس طرح آج مغربی معاشرہ بد ترین قسم کے جرائم اَور اِنسانیت سے گرے ہوئے اعمال میں ملوث ہے اِسی طرح وہ چاہتا ہے کہ پوری دُنیا اُس کی ڈگر پر چل کر اِنسانیت کا لبادہ اُتار دے اَور بہیمیت کی صورت اِختیار کرلے۔ اوراُس کی پلاننگ میں سب سے بڑی رُکاوٹ چونکہ اِسلامی نظام ہے اِس لیے وہ اِنسانیت کی دُہائی دے کر اِسلام کی خوبیوں پر خاک اُڑانے کی کوشش برابر کرتا رہتا ہے۔(جاری ہے) ض