ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2010 |
اكستان |
|
تھے۔ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا باپ حیی بن اخطب (جو بنی نضیر کا سردار تھا) خیبر میں ہی مقیم ہوا تھا۔ جب آنحضرت ۖ خیبر والوں سے جہاد کرنے کے لیے خیبر کی آبادی میں پہنچے تو اُس وقت وہ لوگ اپنے کام کاج کے لیے قلعوں سے باہر نکلے ہوئے تھے آنحضرت ۖاَور آپ کے لشکر کو دیکھ کر سہم گئے اَور کہنے لگے کہ مُحَمَّد وَّالْخَمِیْسُ (محمد ۖ اَور اُن کا لشکر آ پہنچا) ۔حضور ِاقدس ۖنے اِن کے قلعوں کا محاصرہ کرکے یکے بعد دیگرے سب کو فتح کیا۔ آخری قلعہ جو فتح ہوا وہ وطیح کا قلعہ تھا۔ دس روز سے کچھ زیادہ اِس کا محاصرہ رہا۔ مرحب نامی شخص (جو اِس قلعہ کا بڑا تھا) قتل ہوا اَور حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا شوہر جنگ خیبر میں مارا گیا۔ (البدایہ و الاصابہ ) جب جنگ کے ختم پر قیدی جمع کیے گئے تو اُن میں حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی تھیں۔ حضرت دِحیہ رضی اللہ عنہ دربارِ رسالت میں حاضر ہوئے اَور عرض کیا یا رسول اللہ ۖاِن قیدیوں میں سے مجھے ایک باندی عنایت فرما دیجیے۔ آنحضرت ۖنے فرمایا کہ جائو اِن میں سے ایک باندی لے لو۔ اُنہوں نے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا انتخاب کر لیا۔ اِسی اَثنا میں ایک دُوسرے صحابی حاضر خدمت ہوئے اَور عرض کیا یا نبی اللہ ۖآپ نے یہ عورت دِحیہ کو دے دی، وہ بنی قریظہ اَور بنی نضیر کی سردار ہے ١ اِس لیے وہ صرف آپ ہی کے لیے مناسب ہے۔ آپ ۖ نے فرمایا کہ اچھا دِحیہ کو بلائو۔ وہ اُس کو لے کر آئیں۔ چنانچہ وہ حسب ِفرمان والا شان حاضرِ خدمت ہو گئے۔ آنحضرت ۖنے اُن سے فرمایا تم اِس کے علاوہ قیدیوں میں سے دُوسری باندی لے لو چنانچہ وہ اِس پر راضی ہو گئے اَور آنحضرت ۖنے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ٢ کو اپنے لیے منتخب کر لیا اَور اِن کو آزاد کر کے نکاح کر لیا۔( جمع الفوائد) کہا جاتا ہے کہ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نام زینب تھا چونکہ آنحضرت ۖنے اِن کو اپنے لیے منتخب فرما لیا تھا اِس لیے اِن کو'' صفیہ ''کہا جانے لگا، صفیہ کے معنی ہیں اِنتخاب کردہ۔ ١ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا باپ قبیلہ بنی نضیر کا سردار تھا اَور اِن کی والدہ قبیلہ بنو قریضہ کے سردار کی بیٹی تھی۔ اِس لیے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو بنو نضیر اَور بنو قریظہ کی سردار کہا گیا ہے۔ ٢ اِستیعاب میں ہے کہ آنحضرت ۖ نے حضرت دِحیہ رضی اللہ عنہ سے سات باندی غلام دے کر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو لیا۔