ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2010 |
اكستان |
|
ُلائے، عصبیت کی خاطر لڑے اَور عصبیت پر مرے وہ ہم میں سے نہیں ۔'' (ابو دا ود) رُجحانات کو اِسلامی بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ صرف فرائض کی بجاآوری اَور حرام سے بچنے پر ہی اِکتفاء نہ کیا جائے بلکہ جتنے زیادہ ہو سکیں مندوب اَعمال بھی بجا لائے جائیں۔ جب کسی شخص کی یہ دونوں چیزیں یعنی ذہنیت اَور رجحانات اِسلام کے مطابق ہوجاتے ہیں تو پھر ہی اُس کی شخصیت حقیقی معنوں میں اِسلامی شخصیت بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے : ''سو قسم ہے تیرے رب کی !یہ ایماندار نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلافات میں آپ ۖ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلہ آپ اُن میں کردیں اُن سے اپنے دِل میں کسی طرح کی تنگی اَور نا خوشی نہ پائیں اَور فرما برداری کے ساتھ قبول کرلیں۔ ''( سورة النساء : ٦٥) اِسی طرح رسول اللہ ۖ کا اِرشاد ہے : ''تم میں سے کوئی اُس وقت تک (حقیقی) مومن نہیں ہوسکتا ہے جب تک اُس کی خواہشات اُس کے مطابق نہ ہوجائیں جو میں لایا ہوں '' (شرح السُنَّة) یہاں یہ بات بھی سمجھ لینا ضروری ہے کہ اِسلامی شخصیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اُس شخص سے کبھی کوئی خلافِ شرع کام سرزَد ہی نہیں ہو سکتا کیونکہ معصوم صرف اَنبیاء کی ذات ہوتی ہے اَور رسول اللہ ۖ کے صحابہ سے بھی کبھی نہ کبھی خلافِ شرع کام ہوجایا کرتے تھے لیکن اُن کو اِس کی وجہ سے غیر اِسلامی شخصیت قرار نہیںدیا گیا لیکن اِسلامی شخصیت کا تقاضہ یہ ہے کہ کسی گناہ کے سرزَد ہوجانے کے بعد اِنسان فورًا توبہ کرے اَور اُسے خلاف ِ شرع کام سے نفرت اَور اُس پر ندامت ہو۔ آج مسلمانوں کو صرف اِس بات پر ہی اِکتفاء نہیں کرلینا چاہیے کہ وہ اِسلام کی چند عبادات کو پورا کررہے ہوں جبکہ باقی کا سارا اِسلام صرف قرآن اَور کتب ِ حدیث تک محدود ہوکر رہ گیا ہو۔ اِسلام صرف عبادات کے مجموعے کا نام نہیں ہے بلکہ اِسلام ایک مکمل نظام ِ حیات ہے۔ لہٰذا نماز اَور روزہ کی پابندی کرنے والے مسلمانوں کو یہ بات کیوں محسوس نہیں ہوتی کہ جس اللہ نے اُنہیں نماز کا حکم دیا ہے اُسی نے چور کے ہاتھ کاٹنے کا بھی حکم دیا ہے، اور اُسی نے ہی سود کو حرام قرار دیا ہے، جہاد کو فرض کیا ہے، خلافت کے قیام کے بغیر مرنے والے مسلمان کی موت کو جاہلیت کی موت قرار دیا ہے اَور اِسی طرح بہت سے اَور احکامات دیے ہیںجو اِسلامی نظام کے بغیر پورے نہیں ہوسکتے۔ (باقی صفحہ ١٣ )