ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2010 |
اكستان |
|
مثلاً کپڑے خریدتے وقت وہ معاشرے میں رائج فیشن کو دیکھتا ہے یا اَحکام ِ شریعہ کو، کارو بار کرتے ہوئے وہ پیسے کی لالچ میں سب کچھ کرجاتا ہے یا حلال و حرام کے مطابق عمل کرتا ہے، سیاست کرتے ہوئے وہ کفریہ جمہوری نظام کے نفاذ کی کوشش کرتا ہے یا اِسلامی نظام ِ حکومت یعنی خلافت کی، معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے وہ مغربی انقلابوں سے رہنمائی لیتا ہے یا رسول اللہ ۖ کی زندگی سے، وہ اِسلام کو صرف عبادات کا مجموعہ سمجھتا ہے یا ایک مکمل دین جس میں عقائد اخلاقیات اَور عبادات سے لے کر معاملات، معاشرت اَور نظام ِ حکومت اَور تمام دُوسرے نظام ہائے حیات پائے جاتے ہیں۔ اگر وہ اپنی ہر سوچ کو اِسلام کی بنیاد پر بناتا ہے تو اُس کی ذہنیت اِسلامی ہوگی لیکن اگر وہ نماز کے وقت نماز تو پڑھ لیتا ہے لیکن جمہوریت میں ووٹ ڈالتے ہوئے اِسلام کی طرف دیکھتا تک نہیں کہ اِسلام کا اِس بارے میں کیا حکم ہے تو اُس کی ذہنیت اِسلامی نہیں ہے کیونکہ اُس نے اِسلام کو اپنی ہر سوچ کی بنیاد نہیں بنایا۔ اِسلامی ذہنیت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر عمل میں اللہ کی رضاء کے حصول کو مد ِ نظر رکھا جائے ساتھ ساتھ اِسلامی اَفکار اَور اَحکامات کا علم حاصل کیا جائے تاکہ جہالت کی وجہ سے اَنجانے میں بھی اِنسان اِسلامی احکامات کے خلاف عمل نہ کرے۔ جہاں تک رُجحانات کا تعلق ہے تو اِسلامی شخصیت کے لیے اِن کااِسلامی ہونا بھی ضروری ہے۔ رُجحانات کا اِسلامی ہونے سے مراد یہ ہے کہ ہم نہ صرف اپنا ہر مسئلہ اِسلام کے حکم کے مطابق حل کریں بلکہ اُس حل میں ہمارا دِل بھی مطمئن ہو۔ دُوسرے لفظوں میں ہماری تمام خواہشات بھی اِسلام کے مطابق ہوں یعنی جو چیز اللہ کے حکم کے مطابق ہو وہی ہمیں پسند آئے اَور اُس کے حکم کے خلاف ہو ہمیں بھی اُس سے نفرت ہو لہٰذا جیسے اللہ تعالیٰ نے پردہ کا حکم دیا ہے تو پھر نہ صرف یہ کہ ہمارے معاشرے میں اِس پر عمل ہو بلکہ اِس کو عورتیں پسند بھی کریں اَور اُنہیں مغربی اَور ہندو فیشن میں اپنی ذلّت اَور بے عزتی نظر آئے، ہمارے تاجروں کو حرام سے نفرت ہو اَور حلال کمائی کی خواہش۔ اِسی طرح رسول اللہ ۖ کی یہ حدیث سُن کر کہ ''جو شخص مرا جبکہ نہ اُس نے جہاد کیا اَور نہ کبھی اُس کے دل میں جہاد کا خیال گزرا تو وہ نفاق کی ایک قِسم پر مرا ''(مسلم) ۔ ہمارے نوجوانوں میں جہاد کی خواہش پیدا ہونی چاہیے نہ کہ صرف اپنے کیرئیر کی فکر۔اِس حدیث کو سُن کر ہمیں نہ صرف عصبیت چھوڑ دینی چاہیے بلکہ اِس سے نفرت بھی ہونی چاہیے کہ ''جو شخص عصبیت کی طرف