ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2010 |
اكستان |
|
والد نبی علیہ السلام کے ساتھ حدیبیہ کے موقع پر موجود تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُس خاتون کے پاس کچھ دیر کھڑے رہے پھر فرمایا مرحبا تمہارا خاندانی تعلق قریبی ہے اَور پھر ایک قوی اُونٹ کی طرف گئے جو گھر میں بندھا ہوا تھا اُس پر غلے کے بھرے ہوئے دو بوریے لاد ے اُن کے درمیان دیگرسامان اَور کپڑے لاد دیے اَور اُس کی لگام پکڑاتے ہوئے فرمایا کہ اِسے لے جاؤ یہ ختم نہیں ہوپائے گا کہ اللہ تعالیٰ مزید مال عطا ء فرمائیں گے۔ ایک صاحب نے فرمایا اے امیرالمٔومنین آپ نے اِس کو بہت دے دیا تو اُنہوں نے فرمایا تیری ماں تجھے روئے میں نے اِس کے باپ کو اَور بھائی کو دیکھا کہ اُنہوں نے کافی عرصہ ایک قلعہ کا محاصرہ کیے رکھا پھر اُسے فتح کرلیا پھر ہم اُن دونوں کا حصہ طلب کرتے جو فَئی کے مال میں سے تھا۔ (بخاری شریف ص ٥٩٩) کسی موقع پر ایک صاحب کسی پڑے ہوئے نامعلوم بچہ کو لائے اَور آپ کے سامنے پیش کیا آپ نے ضروری تحقیق کے بعد اُن ہی کی سپرد داری میں دیتے ہوئے فرمایا اَذْھِبْ فَعَلَیْنَا نَفْقَتُہ اِس کو لے جاؤ ہمارے ذمہ اِس کا خرچہ ہے۔ (بخاری شریف ص ٣٦٦) اُن کے اِس عزم سے یہ حقیقت روز ِ روشن کی طرح واضح ہے کہ روز ِاوّل سے اِسلام دُور دراز کے بے روزگاروں کو اُن کا وظیفہ معاش اُن کے گھر کی دہلیز تک پہنچاتا بھی ہے اَور اِس میں معمولی سی تاخیر بھی گوارا نہیں کرتا۔ اِسلام کے بعض ایسے ہی اصولوں کو بہت سی کافر حکومتیں اپنا کر کثیر دُنیاوی فائدے حاصل کر رہی ہیں جبکہ ہمارے یہاں کے پردیسی پڑھے لکھے جاہل حکمران پر دیسی پٹی آنکھوں پر چڑھائے مغرب کی زیر سرپرستی پوری قوم کو بنی اسرائیل بنانے پر فخر محسوس کرتے ہیں اَور خدا سے نہیں ڈرتے ۔ اگر مہنگائی و بیروزگاری اَور بے جا ٹیکسوں کا سلسلہ اِسی طرح جاری رہا اَور دُوسری طرف سے حکمرانوں کی عیش پرستی اَور مستی روز اَفزوں رہی تو وہ دِن دُور نہیں کہ فاقہ مست عوام کا سیلابی ریلہ آنًا فانًا سب کو بہا لے جائے اور بجز کف ِ اَفسوس ملنے کے کچھ باقی نہ رہے، دُعا ہے کہ اَندھیروں میں بھٹکتے عوام و حکمرانوں کو اِسلام کی روشن کرنوں کی قدر نصیب بھی ہوجائے اَور ہضم بھی ہوجائے۔