ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2010 |
اكستان |
|
کر دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں کفر و اِرتداد بھی پروان چڑھ رہا ہے اَور قتل وغارتگری کا بازار بھی گرم ہورہا ہے۔ قومی سرمایہ کولُوٹ کر دولت کے اَنبار لگانے والے اِس کو اپنی کامیابی تصور کر رہے ہیں مگر بالآ خر وہ بھی زمین پر آ رہیں گے۔ جب بنیادیں ہی نہ رہیں گیں تو سونے چاندی کی اِینٹیں کس کام آئیں گیں۔ مزدور اَور محنت کش طبقہ معاشی قوت کا اہم عنصر ہے اِس کے استحکام کے بغیر معاشی ترقی اَور اُس کے تسلسل کو برقرار نہیں رکھاجا سکتا نبی علیہ السلام ماتحتو ں کے ساتھ حسن ِسلوک کی خاص طور پر ہدایت فرماتے ہوئے اِرشاد فرماتے ہے : ''تمہارے خادم تمہارے بھائی ہیں تو جس شخص کے ماتحت اللہ تعالیٰ اُس کے بھائی کو کر دیں تو اُس کو چاہیے کہ جو خود کھائے وہ اُس کو بھی کھلائے اور جو خود پہنے وہ اُس کو بھی پہنائے اور اُس کی برداشت سے زیادہ کاموں کا بوجھ اُس پر مت ڈالے ،اگر کاموں کا بوجھ زیادہ ہو تو اُس کا ہاتھ بٹائے۔''(بخاری شریف ج ٢ ص ٨٩٤) جبکہ اِس کے برخلاف پاکستان میں آنے والی ہرسیاسی اَور فوجی حکومت نے مزدُور کی جائز اُجرت کا کوئی قانون وضع نہیں کیا اَور اُن کو استحصالی قوتوں کے رحم و کرم پر چھوڑے رکھا یہی وجہ ہے کہ دِن بدن ملکی اِقتصادی حالت تیزی سے گرتی چلی جارہی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی شہادت سے چار روز قبل بیواؤں کے حق میں اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : '' اگر اللہ نے مجھے زندگی دی تو (دُور بہت دُور) عراق کی بیواؤں کے لیے (گزارہ الاؤنس کا ) ایسا اِنتظام کردُوں گا کہ میرے (وفات پاجانے کے ) بعد وہ کبھی کسی مرد کی محتاج نہ رہیں گی۔'' (بخاری شریف ص ٥٢٣) حضرت عمرکے غلام اسلم کہتے ہیں کہ میں حضرت عمر کے ساتھ بازار گیا وہاں آپ سے ایک جوان خاتون ملیں اَور کہنے لگیں اے امیر المؤمنین میرے شوہر کی وفات ہو چکی ہے اَور چھوٹی بچیاں چھوڑ گئے ہیں اللہ کی قسم پکاکر کھانے کو جانور کے پائے تک نہیں ہیں نہ کھیتی اور نہ ہی دُودھ والا کوئی جانور، مجھے ڈرہے کہ یہ بھوکے مرجائیں گے۔ (پھر اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا) میںخفاف بن ایماء الغفاری کی بیٹی ہوں اَور میرے