ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2009 |
اكستان |
|
خدانخواستہ ہر کسی کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ اللہ کے فضل سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بلکہ تمام عرب ریاستوں کے غریب سے غریب رہائشی بھی دیگر پسماند ہ ملکوں کے آفت زدوں سے بہت درجہ بہتر ہیں اور یہاں کے مقامی مخیر حضرات اور خود اُن کی اپنی حکومتیں کسی بھی پیش آنے والی مصیبت کے وقت اپنے عوام کی خدمت ترجیحی بنیادوں پر کرتی ہیں۔ حال ہی میں ایک ماہ قبل مدینہ منورہ کے قرب وجوار میں زلزلہ آیا اُس کے جھٹکے مدینہ منورہ میں بھی محسوس کیے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی بڑی تباہی سے بھی بچالیا اَعَاذَ ھَا اللّٰہُ وَعَافَاہَا۔ مسجد ِ نبوی کے خادم القرآن الشیخ القاری بشیر احمد صاحب صدیق دامت برکاتہم نے مجھے بتلایا کہ زلزلہ کے مر کز کے قریب رہنے والی تقریباً ساٹھ ہزار کی آبادی کو سعودی حکومت نے حفظ ماتقدم کے طور پر فورًا وہاں سے نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا اور بعد اَزاں اُن کو بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کا بھی مسلسل خیال رکھے ہوئے ہے۔اہل ِ مکہ اور مدینہ کے اِکرام اور تو قیر کا حق دیگر بہت سی صورتوں میں بھی بجا لایا جا سکتا ہے البتہ بعض اَفراد یا خاندان جو کسی مصیبت میں مبتلاء ہوجائیں یا مقروض ہوجائیں تو بطور ِخاص اُن کو ترجیح دینا اور اُن کی مدد کرنا اہل ِ ایمان پر ضروری ہے۔ پوری دُنیا میں بسنے والے مسلمان نبی علیہ السلام کے اُمتی ہیں اُن پر آنے والے مصائب کی صورت میں اُن کے اُمتی ہونے کا خیال کرتے ہوئے زیادہ پریشان حال کو ترجیح دینا قیامت کے دن اللہ اور اُس کے رسول کی خوشنودی کا زیادہ قوی ذریعہ بن سکتا ہے۔ لہٰذا دُنیا بھر کے اہل ِ خیر حضرات اہل ِ مکہ مکرمہ اور اہل ِ مدینہ منورہ کا اِکرام اور توقیر تو سب سے زیادہ کریں اور اُن کے مناسب حال خدمت میں بھی پس و پیش نہ کریں مگر اِس کے ساتھ ساتھ اپنے آس پاس بسنے والے بد حال اُمتّیوں کی خدمت اور بحالی سے صرف ِنظر کرتے ہوئے اِس کو کم درجہ کی نیکی تصور نہ کریں۔ ریا کاری کے بغیر اِخلاص کی بنیاد پر اُمت کی خبر گیری اور بحالی پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم دونوں جہانوں میں شامل ِ حال رہے گا۔ پاکستان کی ایک خاتون جو بیس پچیس برس قبل وفات پا چکی ہیں اُنہوں نے مدینہ منورہ میں رہائش اختیار کر لی تھی سچی عاشق ِ رسول تھیں۔ میرے والد ماجد بڑے حضرت رحمة اللہ علیہ سے بہت عقیدت رکھتی تھیں اور اُنہیں بار بار خط لکھ کر مدینہ منورہ کی سکونت اختیار کرنے کا پر زور مشورہ دیتی تھیں آخر میں اُنہوں نے ایک بار