ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2009 |
اكستان |
|
کے دَر کی خاک رُوبی نصیب ہوئی اُنہوں نے اپنے دست ِمبارک سے میرے سر پر عمامہ باندھ کر فرمایا یہ دستارِ خلافت ہے۔ حضرت شیخ الہند مولائی محمود حسن قدس اللہ سرہُ العزیز کی خدمت گزاری اور اُن کی عنایات نصیب ہوئیں۔ یہ سب بفضل اللہ تھیں۔ ٭ جو کام اصلاح کا ہو اَور شیطان کی خواہشات کے خلاف ہو اُس میں طبیعت کا گھبرانا اور نفس پر بوجھ پڑھنا ضروری ہوتا ہے مگر اِستقلال اَور مداومت سے آہستہ آہستہ اُس میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔ ٭ میرے محترم آپ کی جوانی کا زمانہ ہے، اِس عمر میں تھوڑی سی بھی محنت وہ کچھ ثمرات اور نتائج پیدا کرتی ہے جو کہ بڑھاپے میں بڑی بڑی جانفشانیوں سے بھی نہیں پیدا ہوتے، اِس لیے اِس وقت کو غنیمت سمجھ کر ذکرو فکر میں جہاں تک ممکن ہو اِس کوخرچ کرنا چاہیے۔ ٭ جس قدر بھی تعمیر اَوقات با لعبادات والا ذکار ہو رہی ہے اُس پر شکر کرتے رہیں،قرآن مجید کا شغف بہت ہی مبارک ہے۔ ٭ حضرت مولانا (شیخ الہند ) قدس اللہ سرہُ العزیز کی سوانح ِ عمری لکھنے کا خیال مجھ کو اُن کے وصال کے وقت سے تھا جب مولوی عاشق الٰہی صاحب (میرٹھی ) نے اشتہار دیا تو طبیعت خوش ہوئی کہ یہ بوجھ بوجہ اَتم وہ اُٹھا سکتے ہیں اُن کی تحریری قابلیت اور سامان ِ طبع وغیرہ اِس کے لیے پورے کافی ہیں مگر اُن دِنوں دیوبند کے اُن معزز حضرات نے جن کو مولانا رحمة اللہ علیہ کے اَحوال سے بہت اچھی واقفیت تھی تمام عمر اُنہی کی صحبت (رہی ) تھی فرمایا کہ ہم لکھیں گے، باہر کے لوگوں کو کیا اطلاع ہو سکتی ہے ،تجھ کو لازم ہے کہ ایک اشتہار اِس مضمون کا لکھ دے اَور مالٹا کے احوال کو قلم بند کردے ہم نہایت مکمل سوانح عمری تیار کریں گے۔ میں نے اپنی ناتجربہ کاری سے اشتہار دے دیا، اِس پر مولوی عاشق الٰہی صاحب علیحدہ کبیدہ خاطر ہوگئے۔ مجھ کو کلکتہ کا سفر درپیش تھا میں وہاں چلا گیا اور وہاں سے تقاضے پر تقاضے کرتا رہا مگر وہاں اِمروز و فردا ہوتا رہا اور کثرت ِاشغال اور قلت ِ فراغ کی غیر متناہی طاقتوں نے آج کا دِن دکھا یا، جب میں تقاضے کرتے کرتے تھک گیا اور مایوس ہو گیا تو پھر مولوی عاشق الٰہی صاحب سے کہا، اُنہوں نے اِنکار کر دیا میں نے سفرِ مالٹا کے اِس قدر حالات کو جن کو ظاہر کر سکتاتھا اَور جن پیرایوں میں ظاہر کر سکتا تھا کراچی سے لکھ کر مولوی مرتضیٰ حسن صاحب کے ہاتھ مولوی عزیر گل کوبھیجا تھا۔