ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون2009 |
اكستان |
|
یہ بات کوئی راز نہیں کہ امریکہ سوات امن معاہدے کے سخت خلاف ہے۔بارک اَو باما نے اپنی نئی پالیسی میں ایسے معاہدوں کی کوئی گنجائش نہیں رکھی۔ وہ گروپ 20 کے اجلاس کے دوران یو رپی مندوبین کو بھی پاکستان کے خلاف جار حانہ اِقدام پر قائل کر تے رہے۔ سوات شورش سے تنگ آئی ہوئی حکومت سر حد نے مصالحانہ اَمن کی نئی کو شش کیں با لآ خر صوفی محمد کی معاونت سے ایک معاہدہ طے پایا گیا جس کی بنیاد قاضی کورٹس کا قیام تھا۔ ستم رسیدہ اہل ِ سوات نے سکھ کا سانس لیا کہ چلیں امن کی کوئی صورت تو ہو۔ لیکن اسلام آباد میں خوف اور تشویش کی یہ لہر پیدا ہو گئی کہ کیا امریکہ صوفی محمد کی قیادت میں طے پانے والے کسی ایسے معاہدے کو ٹھنڈے پیٹو ں برداشت کر لے گا جس کے ساتھ اسلامی شریعت اور قاضی عدالتوں جیسے سابقے اور لاحقے جڑے ہوں؟ صد زرداری امریکہ کی اِسی پالیسی کے پاسبان ہیں جس کی بنیاد مشرف دَور میں پڑی۔وہ ایک وسیع تر مفاہمت کے تحت تسلسل کی کڑی ہیں اور مشرف ہی کی طرح اپنے استحکام کے لیے امریکی خوشنودی کو بالا ترین ترجیح خیال کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جس دن سوات معاہدہ ہوا اور با لعموم اِس کی تحسین کی گئی اور حکومت ِ سر حد نے بتایا کہ اِس معاہدے کو جناب ِ صدر کی حمایت حاصل ہے، اُسی شام ایوان ِ صدر کی ہدایت پر وزیر ِ اطلاعات شیریں رحمان نے بطور ِ خاص بیان جاری کیا کہ صدر زرداری اُس وقت تک اِس معاہدے کی منظوری نہیں دیں گے جب تک سوات میں مکمل امن بحال نہیں ہوجاتا۔ وہ اَب تک اپنی رائے پر قائم ہیں۔ حکومت ِ سرحد کی طرف سے پیہم اصرار کے باوجود صدر زرداری نے معاہدے کی باضابطہ منظوری نہیں دی اور اِس دوران سوات میں جو نظام ِ عدل رائج کر دیا گیاہے اُسے آئینی و قانونی تحفظ حاصل نہیں ہوا۔ بین الا قوامی دباؤ کی زنجیروں میں جکڑی حکومت کی نگاہیں سوات کے امن سے کہیں زیادہ خارجی ردّ عمل پر مذکور ہیں۔ کیا اِسے معاہدہ سوات سے انحراف کے لیے کسی جواز کی تلاش ہے؟ کیا کئی ماہ پرانے واقعے کی یہ ٹیپ اِس منظم اَنداز سے منظر عام پر لانے والی این جی او قطعی طورپر معصوم ہے اور اِسے محض ایک لڑکی پر ہونے والے ستم نے اِسے '' جہاد ِ اکبر '' پر مجبور کردیا؟ ہا لبرک بصد تزک واحتشام تشریف لا رہے ہیں۔ کیا اُن کی دلدادی کے لیے یہ لازم ٹھہر ا ہے کہ سوات کے شورش پسند عناصر کا چہرہ حتی الامکان حد تک ''مکروہ '' بنا کے پیش کیا جائے؟ کیا اِس سارے کھیل کا مقصد پاکستان کے عوام کو فکری اور جذباتی طورپر بلیک میل کر کے معاہدہ