ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون2009 |
اكستان |
|
فرقتِ صفدر میں ہوں اَندوہگیں ( جناب پروفیسر میاں محمد افضل صاحب، ساہیوال ) نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اما بعد ! حضراتِ گرامی! موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کا منکر کوئی نہیں ہے۔ذاتِ باری تعالیٰ کے منکر تو ہر زمانہ میں پائے گئے لیکن آج تک موت کے منکر سے یہ دُنیا خالی ہے۔علامہ اقبال نے اِسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے : کلبۂ احزان میں ، دولت کے کاشانے میں موت دشت و دَر میں ، شہر میں، گلشن میں، ویرانے میں موت لیکن کچھ موتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی یاد مدتوں تک باقی رہتی ہے،خاص طور پر علمائے کرام اور بزرگانِ دین کی موت تو بھولے نہیں بھلائی جاتی۔ میرے شیخِ طریقت،مرشدِ کامل جناب سیّد نفیس الحسینی شاہ صاحب کی وفات کا صدمہ تا حال دلِ حزیں کو مضطرب رکھتا ہے۔انہیں گئے سوا سال ہوا تھا کہ ٥ مئی٢٠٠٩ء کو امامِ اہلسنت شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صاحب صفدر اس عالمِ فانی سے عالمِ جاودانی کی طرف سدھار گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔مولانا اگرچہ آٹھ نو سال سے صاحبِ فراش تھے لیکن اِس کے باوجود اُن کا وجودِ باجوداُن کے متوسلین اور تلامذہ کے لیے باعثِ حوصلہ وہمت تھا۔ایسے علماء کی موت کو ہی مَوْتُ الْعَالَم یعنی جہان کی موت کہا گیاہے۔ دُعا ہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ آپ کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور آپکے پس ماندگانِ روحانی اور جسمانی کوصبرِ جمیل کے ساتھ ساتھ اُن کی راہ پر چلنے کی تو فیق مرحمت فرمائے۔کسے خبر تھی کہ ١٩١٤ء کو مانسہرہ کے پہاڑی علاقے میں پیدا ہونے والا گمنام بچہ علمائے حق کے لیے مشعلِ راہ بنے گااور دورِ حاضر کے تمام فِتَن وشرور کا علمی رنگ میں محاسبہ کرے گا۔ نام ِ نامی کی وضاحت: حضرت کا نام محمد سرفراز خان تھا،آپ کی کنیّت ابوالزاہدبڑے بیٹے مولانا زاہدالراشدی کی وجہ سے تھی ۔آپ کا تخلص صفدر اور لقب امامِ اہلسنت تھا۔ یہ تخلص آپ نے خود نہیں رکھا تھا بلکہ اِس سلسلہ میں ایک