ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون2009 |
اكستان |
|
دینی مدارس اَور دَہشت گردی کی تازہ لہر ( جناب قاری محمد حنیف صاحب جالندھری ،ناظم اعلیٰ وفاق المدار س العربیہ پاکستان ) وطن ِ عزیز اِ س وقت بد اَمنی اور دہشت گردی کی جس لہر کی لپیٹ میں ہے اِس پر ہر درد ِدل رکھنے والا پاکستانی فکر مند ہے اِس دہشت گردی کے اسباب وو جوہات اور اِس کے پس ِ منظر کے حوالے سے بہت کچھ کہا اور سنا گیا ہے لیکن اِن دِنوں ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ دہشت گردی کی حالیہ لہر کی ڈانڈے دینی مدارس کے ساتھ جوڑ نے کی کوشش کی جارہی ہے اور ایسا ماحول بنا یا جا رہا ہے کہ دینی مدارس ''تنگ آمد بجنگ آمد'' کا مصداق بن جائیں۔ دینی مدارس قیام ِ پاکستان سے لے کر آج تک دینی اور تعلیمی خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور اِس عرصے میں یہ اِدارے کسی قسم کی دہشت گردی میں نہ کبھی ملوث رہے ہیں اور نہ ہی اِن اِداروں نے کسی قسم کے تشدد کا درس دیا ہے۔لیکن اِس کے باوجود اِن اِداروں کو دہشت گردی سے منسوب کرنے کی بھونڈی کوشش کی جاتی رہی، پہلے پہل جب مدارس کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے بارے میں جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا جانے لگا تو اَرباب ِ مدارس نے ہر فورم پر ایسے مبہم اِلزامات عائد کرنے کی بجائے اُن مدارس کی نشاندہی کرنے کو کہا جہاں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہو یا جہاں اسلحہ موجود ہو ،چنانچہ نہ تو کسی مدرسے کے بارے میں ٹھوس شواہد پیش کیے جا سکے اور نہ ہی کہیں سے اسلحہ بر آمد کیا جا سکا بلکہ خود وزارت ِ داخلہ نے اِس حوالے سے اعلیٰ سطح پر تحقیقات کرنے کے بعد یہ رپورٹ پیش کی کہ پاکستان کا کوئی مدرسہ بھی دہشت گردی میں ملوث نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کے بعد پرو پگنڈہ کا یہ سلسلہ رک جاتا لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہوا۔ اور اَب پرو پگنڈہ کا سلسلہ ایک قدم آگے بڑھ گیا اور مدارس پر چھاپے مار کر اور مدارس کے بے گناہ طلباء کو حساس اِداروں کے ذریعے غائب کر واکر دہشت گردی کا ملبہ مدارس پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امن و امان کی موجودہ سنگین صورت حال اور مذہبی قوتوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کے باوجود مدارس کے منتظمین، اساتذہ اور لاکھوں طلباء کو اِس دہشت گردی سے خود کو الگ تھلگ رکھنے اور